سندھ سے ٹیکس کی مد میں جمع کیے گئے 22 ارب واپس کیے جائیں، سندھ حکومت کا وفاق سے مطالبہ

نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نےوفاق سے سندھ ورکرز ویلفیئر فنڈزکے 22 ارب روپے کی ادائیگی کا مطالبہ کر دیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو ڈی او لیٹر کے ذریعے انکی توجہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ورکرز ویلفیئر فنڈ کی غیر قانونی وصولی کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئین میں 18ویں ترمیم اور کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے بعد سندھ حکومت نے سندھ ورکرز ویلفیئر فنڈ ایکٹ 2014 اور سندھ کمپنیز پرافٹس (ورکرز پارٹی سپشن) ایکٹ 2015 نافذ ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت آئینی طور پر سندھ میں قائم صنعتی اداروں سے ورکرز ویلفیئر فنڈ اینڈ سندھ ورکرز پارٹی سپشن فنڈز جمع کرنے کی مجاز ہے جو کہ صنعتی یونٹس کے مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلئے ایک اسکیم ہے۔

وزیر اعلیٰ نے خط میں کہا کہ مذکورہ بالا واضح آئینی ترمیم کے باوجود ایف بی آر سندھ میں مقیم فنڈ ادا کرنے والوں سے مسلسل WWF/WPPF وصول کر رہا ہے حتیٰ کہ ایسے SWWF/SWPPF سندھ میں قائم صنعتی اداروں کی طرف سے FBR میں جمع کرائے جانے والے اربوں روپے آتے ہیں جس پر پہلا حق صوبہ سندھ کا ہے۔

وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کے ساتھ چند فنڈز ادا کرنے والوں کی فہرست شیئر کی جنہوں نے ٹیکس سال 22-2014کے ایف بی آر میں 22 ارب روپے سے زائد جمع کرائے ہیں۔

جسٹس باقر نے او جی ڈی سی ایل، پی ایس او، پی پی ایل، اینگرو گروپ، فوجی گروپ اور دیگر مینوفیکچررز کی جانب سے ایف بی آر کو ادا کیے جانے والے فنڈز کے حوالے سے کہا کہ یہ رقم سندھ حکومت کے پاس جمع کرائی جا سکتی ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایف بی آر نے غیر قانونی طور پر جمع کی گئی رقوم کو اپنے پاس رکھا ہے اور اسے سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کو منتقل کرنے میں ناکام رہا ہےجو کہ مالی سال 16-2015تک رائج سابقہ طرز عمل کے برعکس ہے اور غریب مزدوروں اور انکے خاندانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جانے والی رقم کو صوبہ سندھ سے محروم رکھا جارہاہے۔

وزیراعلیٰ نے وزیراعظم پر زور دیتے ہوئے درخواست کی کہ وہ وزارت خزانہ کو ہدایت دیں کہ وہ تمام SWWF/SWPPF کے فنڈز سندھ حکومت کو منتقل کریں جس میں 22 ارب روپے صوبہ سندھ سے متعلق بین الصوبائی اداروں کی طرف سے دیے گئے فنڈز بھی شامل ہیں۔