سندھ کی باگڑی برادری نسل در نسل ووٹ دینے سے خفا کیوں؟
پنجاب کی سرحد کے ساتھ ملحق سندھ کے شمالی ضلع ضلع کشمورایٹ کندھکوٹ کی أبادی 12 لاکھ 33 ہزار 975 جب کہ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 5 لاکھ 84 ہزار 494 ہے اور ضلع میں 82 ہزار کے قریب اقلیتی برادری کی آبادی ہے۔
ضلع میں تین تحصیل شامل ہیں تینوں تحصیلوں میں اقلیتی برادری کے ووٹ موجود ہیں، شہری اور دیہی علاقوں میں اقلیتی برادری کا ووٹ کثیر تعداد میں رجسٹرڈ ہے مگر اس باجود اقلیتی برادری عام انتخابات کے دوران حق رائے دہی کا استعمال انتہائی کم کرتی دکھائی دیتی ہے۔
سندھ میں آباد سب سے بڑی اقلیت ہندو برادری کی کئی برادریاں ہیں، جن میں باگڑی برادری بھی شامل ہے جو بنیادی طور پر کھیتی باڑی کا کام کرتی ہے، یہ عام طور پر سندھ بھر میں پھل اور سبزیوں کی کاشت کرتے دکھاتے دیتے ہیں اور اسی کاشت کی وجہ سے وہ اپنے علاقوں سے دور جا کر دوسرے علاقوں میں بھی آباد ہوتے ہیں جس وجہ سے اکثر وہ ووٹ دینے سے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ فصل کرنے کیلئے اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر کے دوسرے علاقے میں کام کرتے ہیں۔
اس حوالے سے باگڑی برادری کے رہنما اور قانون دان فقیر گوکل داس نے سندھ میٹرز کو بتایا کہ ہماری برادری سندھ بھر میں آباد ہے، کندھ کوٹ ضلع مین تیس ھزار کی آبادی ہے اور اندازا باگڑی برادری کے 10 ہزار ووٹ رجسٹرڈ ہوں گے لیکن اکثریت ووٹ نہی دیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں جو نسل در نسل کرتے آ رہے ہیں، سبزیوں اور پھل کی کاشت کا کام اکتوبر اور نومبر ماہ سے شروع ہو جاتا ہے جو 6 ماہ تک جاری رہتا ہے، اس دوران وہ لوگ اس زمین پر ہی رہائش اختیار کرتے ہیں، جہاں وہ کاشت کر رہے ہوتے ہیں، اسی عرصے دوران کبھی بھی ملک میں عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات ہوں مگر وہ لوگ ووٹ دینے کے لیے اپنے علاقوں میں واپس نہیں آتے، کیونکہ ان کو ووٹ کے حوالے سے کوئی آگاہی پروگرام نہیں دیا جاتا اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے ووٹ کی اہمیت کا ہی پتہ نہیں ہوتا۔
اسی حوالے سے ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن آفیسر ستار سردار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم آگاہی پروگرام کرتے ہیں جو لوگ جہاں پر رہائش کرتے ہیں وہ اپنا ووٹ درج کروائیں تاکہ الیکشن میں وہ اپنے علاقے کی پولنگ اسٹیشن پر ووٹ دے سکیں، باقی ہم کسی خاص جیسے کہ اقلیتی برادری کے لوگوں کیلئے آگاہی پروگرام نہیں کرتے، ووٹر لسٹیں بھی ایک ساتھ ہیں، سب پاکستانی ایم پی اے اور ایم این اے کو منتخب کرنے کیلئے ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔
کھیتی باڑی کرنے والی محنت کش کرشن باگڑی نے سندھ میٹرز سے حق رائے دہی کے استعمال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہمیں ووٹ دینے کا کیا فائدہ ہوگا؟ ہمارا گزر سفر کھیتی باڑی پر ہے، ہم اپنے بچوں اور خاندان کے لوگوں کا گزارا فصل کر کے کرتے ہیں، 50 سال کا ہوا ہوں ایک بار بھی ووٹ نہیں دیا اور نہ ہی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ووٹ کس مقام پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کھیتی باڑی کی وجہ سے ہم کبھی کندھ کوٹ سے ٹھل تو کبھی ٹھل سے جیکب آباد چلے جاتے ہیں، جب کھیتی باڑی کا سیزن نہیں ہوتا تو ہم کراچی بھی جا کر رہتے ہیں، جہاں پر مزدوری کرتے ہیں، ہم کہیں بھی ہوں لیکن پولنگ کے دن گھر میں ہی گزارتے ہیں، ووٹ کاسٹ کرنے میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی آج تک ووٹ کاسٹ کیا ہے۔
قومی اسمبلی کی نشت پر 2018 میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جے ڈی اے) کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے قانون دان عبدالغنی بجارانی نے باگڑیوں کے ووٹنگ عمل میں شمولیت اختیار نہ کرنے کے حوالے سے سندھ میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہا کہ کھیتی باڑی کرنے والے باگڑی برادری کے افراد کو ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی دینے کی اہم ضرورت ہے کیونکہ اس برادری میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کھیتی باڑی کی وجہ سے نقل مکانی کرتے رہتے ہیں، میں نے اپنی طرف سے الیکشن مہم اوراس کے بعد کوشش کی لیکن یہ کام اگر الیکشن کمیشن والے کریں تو کافی بہتری آسکتی ہے، میری کوشش سے کچھ لوگ جو کبھی بھی ووٹ نہیں دیتے تھے وہ قائل ہوئے۔
عبدالغنی بجارانی نے کہا کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان برادری کے لوگوں کے مسائل کوئی حل نہیں کرتا جو منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچتے ہیں انہوں نے کبھی بھی ان کا حال نہیں پوچھا، اگر ان کا حال چال پوچھا جائے اور ان سے رابطے میں رہا جائے تو یہ ووٹ دینے کے لیے بھی قائل ہو سکتے ہیں۔
الیکشن 2018 میں سندھ یونائٹیڈ پارٹی (ایس یو پی) کے امیدوار برائے سندھ اسمبلی دل مراد نے اقلیتی برادری کی کھیتی باڑی کرنے والے لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ سے ووٹ سے محروم ہونے پر بتایا کہ بلکل یہ اہم بات ہے لیکن الیکشن کے دوران کام زیادہ ہونے سے اس طبقے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔
دل مراد کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ لوگ نقل مکانی زیادہ کرتے ہیں کندھ کوٹ، کراچی، سکھر، لاڑکانہ اور شکارپور سمیت دیگر شہروں میں وقفے وقفے سے رہائش اختیار کرتے ہیں اور ان کا کارڈ جہاں کا ہوتا ہے وہ وہاں سے نقل مکانی کر لیتے ہیں اس لیے دشواری ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ووٹنگ عمل میں لانے کے لیے سب پہلے ان لوگوں کی مکمل تفصیلات ہمارے پاس ہونی چاہیے اور اس پرالیکشن کمیشن آف پاکستان آگاہی پروگرام منعقد کرائے ان کے پاس جا کر لوگوں کو ووٹ کی اہمیت اور قومی فرض کیلئے قائل کرنا ہوگا تا کہ یہ لوگ ووٹ دینے سے محروم نہ ہوں۔
ایس یو پی رہنما کے مطابق ہم بھی اپنی طرف سے کوشش کریں گے کہ ہمارے حلقہ کے لوگ جو نقل مکانی کرگئے ہیں وہ ووٹ ہمارے حلقے میں ہے تو مکمل تفصیل لے کران کو وہاں کے لے ورک کریں گے اور کوشش کریں گے کہ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میناٹی سندھ کے رہنما ڈاکٹر مہرچند نے باگڑیوں کے ووٹ کے حوالے سے سندھ میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادریوں میں باگڑی برادری بہت کم پڑھی لکھی ہے، وہ خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے ہیں، رہتے کہیں ہیں تو ان کا شناختی کارڈ کسی اور جگہ کا ہوتا ہے اسی وجہ سے انہیں ووٹ کا حق بھی ان کو نہیں ملتا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ ووٹ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے کیونکہ ان کے پاس کوئی بھی اقلیتی نمائندہ یا منتخب نمائندہ نہیں پہنچتا۔
ڈاکٹر مہرچند کا کہنا تھا کہ مخصوص سیٹوں پر اقلیتی نمائندے بن کراسمبلیوں میں جانے والے اقلیتی برادری کے نمائندے نہیں بلکہ پارٹی کی نمائندے ہوتے ہیں وہ صرف پارٹی کیلئے کام کرتے ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی اقلیتی برادریوں کے پاس جا کر ان کے مسائل حل نہیں کرتے۔
ان کے مطابق حلقے سے منتخب ہونے والے نمائندے انہیں فنڈز کے لیے اقلیتی نشستوں پر منتخب ہونے والوں کے پاس بھیجتے ہیں جب کہ اقلیتی سیٹ پر اسمبلی جانے والے ارکان انہیں منتخب امیدواروں کے پاس بھیجتے ہیں اور کسی بھی تہوار پر ان کے لیے کوئی فنڈز نہیں رکھے جاتے، ان کے مندروں اور درگاہوں کی کی تعمیر کیلئے کوئی اسکیم نہیں لائی جاتی جب کہ دیوالی،ہولی یا کسی اور تہوار پر ان غریبوں کیلئے کوئی فنڈ نہیں رکھا جاتا، جس وجہ سے وہ ووٹ دینے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔
پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ کندھ کوٹ ضلع میں باگڑی برادری کے چارسے پانچ بڑے گاؤں ہیں، جہاں پر ان کی ہزاروں میں آبادی ہے، اگر ان کے پاس جاکرالیکشن کمیشن ان کو قائل کرے اور انہیں ووٹ کی اہمیت بتائی جائے تو وہ لوگ ووٹ دینے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں