دارالحکومت کراچی سے رواں برس اب تک 195 نوزائیدہ بچوں کی لاشیں برآمد
سندھ بھر میں نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملنے کے خلاف مقدمات دائر کرنے کے احکامات کے باوجود صوبائی دارالحکومت کراچی میں رواں سال اب تک کچرا کنڈیوں سے 195 نوزائیدہ اور نا مکمل بچوں کی لاشیں ملنے کا انکشاف سامنے آیا ہے، جنہیں ایدھی فائونڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کی جانب سے سپرد خاک کیا گیا۔
واقعے پر نظر رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ مضافاتی آبادیوں میں قائم اتائی میٹرینٹی سینٹرز اس گھنائونے فعل میں ملوث ہیں۔
ایدھی ذرائع کے مطابق رواں سال اب تک کراچی کے مختلف علاقوں سے 195 نوزائدہ اور نامکمل بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں، جنہیں رضا کاروں نے سپرد خاک کیا۔
روزنامہ امت کی رپورٹ کے مطابق جن نوزائیدہ اور نا مکمل بچوں کی لاشیں ملی ہیں ان میں زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال ماہانہ بنیادوں پر ملنے والے نوزائیدہ بچوں کی لاشوں کی تعداد پر نظر ڈالی جائے تو جنوری میں 13 نوزائیدہ بچوں کی لاشیں شہر کے مختلف علاقوں سے ملیں۔ فروری میں 16 لاشیں ملیں۔ مارچ میں 20 لاشیں ملیں۔ اپریل میں 18 لاشیں ملیں۔ مئی میں14، جون میں 14، جبکہ جولائی میں سب سے زیادہ لاشیں 30 ملیں۔ اسی طرح اگست میں 28، ستمبر میں 19، اکتوبر میں 20 لاشیں اور نومبر میں 3 لاشیں شہر کی مختلف کچرا کنڈیوں سے مل چکی ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس ہی انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس نے ہدایات کی تھیں کہ نوزائیدہ بچوں کی لاش ملنے پر علاقے کے تھانے میں مقدمہ دائر کرکے بچوں کی لاشوں کو قانونی کارروائی کے بعد مدفون کیا جائے اور اس ضمن میں کراچی پولیس کی جانب سے پہلا مقدمہ 4 جولائی کو اتحاد ٹائون تھانے میں سرکاری مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
سندھ بھر میں نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملنے پر مقدمات دائر کرنے کا حکم
جس کے بعد سے اب تک 50 سے زائد مقدمات کراچی کے مختلف تھانوں میں درج ہو چکے ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس معاملے میں پولیس صرف مقدمات درج کرنے کی حد تک ہی محدود ہے اور ان مقدمات پر تفتیش نہ ہونے کے برابر ہے۔
اب تک پولیس کسی بھی ملزم یا ملزمان کو ان معاملات میں گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ان معاملات میں سب سے زیادہ ملوث وہ میٹرنٹی سینٹرز ہیں جو شہر کے مضافاتی علاقوں میں قائم ہیں اور ان میں سے زیادہ تر غیر رجسٹرڈہیں، جن میں اتائی ڈاکٹروں سمیت دائیاں اس گھنائونے فعل میں ملوث ہیں جو اسقاط حمل کے کام کے منہ مانگے دام وصول کرکے یہ کام کرتی ہیں اور نوزائیدہ و نا مکمل بچوں کو بھی ان ہی کی جانب سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔
امت کی رپورٹ کے مطابق کیس خراب ہونے کی صورت میں پھر مریض کو کسی بڑے اسپتال منتقل کیا جاتا ہے، مگر ان جعلی ڈاکٹروں اور میٹرنٹی سینٹر کے مالکان کی کوشش ہوتی ہے کہ مریضہ کیس خراب ہونے کی صور ت میں جانبر نہ ہوسکے تاکہ ان کے راز باہر نہ نکلیں۔
پولیس ذرائع کا اس معاملے میں بات کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ اسقاط حمل کروانے والی خواتین میں زیادہ تعداد ان عورتوں کی ہے جو کراچی میںفحاشی کا نیٹ ورک چلانے والی مافیا کے ساتھ منسلک ہیں۔