سندھ بھر میں پولیس کی سرپرستی میں غیر قانونی کام ہو رہے ہیں: نگران وزیر اعلی

نگران وزیرِ اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کا کہنا ہے کہ شہر کے لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے، یہ ناقابلِ برداشت ہے، صوبے میں پولیس کی سرپرستی میں غیر قانونی کام ہو رہے ہیں۔

نگران وزیراعلی سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کے زیر صدارت صوبے میں امن و امان سے متعلق اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیرداخلہ، پولیس حکام سمیت دیگر عہدیداران نے شرکت کی۔

آئی جی سندھ رفعت مختار نے وزیراعلی سندھ کو بریفنگ میں بتایا کہ صوبے بھر میں مجموعی طور پر امن امان کی صورتحال بہتر ہے۔ غیرقانونی تارکیں وطن کی واپسی بہتر طریقے سے جاری ہے، سی پیک اور نان سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کی سکیورٹی جاری ہے۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند نے کراچی کی صورتحال سے متعلق بریفنگ میں بتایا کہ جنوری تا نومبر 2023ء میں 537 قتل کے واقعات ہوئے جو 2022ء سے 57 عدد زیادہ ہیں۔ اغوا برائے تاوان کے 51 مقدمات ہوئے ہیں جو گزشتہ سال سے 13 کیسز کم ہوئے ہیں۔

بھتہ خوری کے 135 کیسز ہوئے جو کہ گزشتہ برس سے 25 زیادہ ہیں، 316 قتل کے مقدمات حل کئے ہیں اور 566 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ قتل کے 50.39 فیصد کیسز دشمنی کی بنیاد پر تھے اور دیگر صوبوں کے لوگ ملوث تھے۔

اغوا برئے تاوان کے 21 کیسز حل کئے اور 49 گرفتاریاں کی گئی اور بھتہ خوری کے 78 مقدمات حل کئے گئے اور 98 گرفتاریاں ہوئیں۔

نگران وزیراعلی سندھ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں پولیس کی پیٹرولنگ نظر نہیں آتی، پولیس تھانوں کی انسپیکشن نہیں کی جاتی، شہر کے لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے یہ ناقابل برداشت ہے۔

وزیراعلی سندھ نے ایڈیشنل آئی جی پولیس کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اسٹریٹ کرائم پر ہر صورت قابو پایا جائے۔ جو پولیس اہلکار کام نہیں کرتے ان کو فارغ کیا جائے۔ شہر میں اب پولیس ڈکیتی کرے گی تو ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ صوبے بھر میں جو بھی غیر قانونی کام ہو رہے ہیں وہ پولیس کی سرپرستی میں کئے جارہے ہیں۔