سندھ دشمنی: نواز لیگ اور ایم کیو ایم کی این ایف سی اور اٹھارویں ترمیم کی مخالفت

جب سے نواز شریف اور نواز لیگ ”ووٹ کو عزت دو” کے نعرے سے دستبردار ہوئے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم کو اپنی سیاست کا محور بنایا ہے۔

واضع رہے کہ 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ ماسوائے پنجاب کے دیگر تمام چھوٹے صوبوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے، جسے طویل عرصے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے جرأت مندانہ انداز میں پورا کرکے تمام صوبوں کو آئینی تحفظ فراہم کیا ہے۔

18ویں ترمیم 1973 کے آئین میں تمام صوبوں سے کیے گئے وعدے کو پورا کیا گیاہے، جس کیلئے چھوٹے صوبوں کو غیر معمولی صبر اور بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔ چالیس برسوں بعد یہ خواب حقیقت میں بدل گیا ہے۔ جیسا کہ 1973 کا آئین بھی شہید ذوالفقار بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ہی دیا تھا لیکن وقت اور حالات سمیت مارشلا در مارشلا کی بنا پر پاکستان پیپلزپارٹی کو مذکورہ وعدے کو پورا سے متعلق جدوجہد کو پایہ تکمیل کرنے میں چالیس برس لگ گئے اور 2010 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت میں اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کی ذاتی اور نتھک کوششوں کی بدولت قوم کو اٹھارہویں ترمیم کا تحفہ ملا۔

موجودہ حالات میں ایم کیو ایم اور نواز لیگ جوکہ موجودہ منظر نامے میں ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی بندھن میں ایک ہوگئے ہیں، جس بنیادی سبب یہ ہے کہ ان دونوں کو سندھ سمیت دیگر چھوٹے صوبوں کے حقِ حاکمیت، صوبائی خودمختیاری اور معاشی استحکام سے متعلق امورکی پالیسیاں ہمیشہ منفی رہی ہیں۔ یہ ہی سبب ہے کہ مذکورہ دونوں جماعتیں اقتداری اور الیکشن مہم میں اپنے حقیقی چہرے کے ساتھ عیاں ہوگئی ہیں، اور اقتدار کے حصول کیلئے اپنی تمام تر سیاسی اصولوں کی پامالی کررہی ہیں، تاکہ اسٹبلشمنٹ اور اقتداری قوتوں کا دوبارہ آشیرباد حاصل ہوسکے۔

تابم سیاسی، ذی الشعور افراد سمیت سیاسی قوتیں جانتی ہیں کہ 18ویں ترمیم کیلئے بنائی گئی کمیٹی میں نواز لیگ اور ایم کیو ایم کو شامل کیا گیا تھا اور ان کا ووٹ بھی ترمیم کے حق میں ہے۔ نامعلوم اسباب کی بنا پر بارہ برسوں کے بعد وہ کس کے اشارے پر اپنے کئے گئے فیصلے کو پلٹ کر اس میں تبدیلی کا گیت گا رہی ہیں۔

تمام سیاسی قوتیں اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو اپریل 2010ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کوششوں اور قیادت سے حقوق و اختیارات حاصل ہوئے ہیں، وہ صوبائی محکمے اور حق برٹش حکومت کے 1935 کے آئین میں صوبوں کی تفویض کئے گئے تھے، جہ 1973 کے آئین میں کنکرٹ لسٹ کے نام سے جانے جاتے تھے، تاہم پاکستان کے صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین محترم آصف علی زرداری خصوصی طور پر پیش قدمی کرتے ہوئے 75 برسوں سے حقیقی شناخت دی اور سندھ صوبے کو اپنے درست تلفظ دینے کیلئے انگریزی زبان میں ایچ کا اضافہ کیا۔

صوبوں کو ان کے تاریخی اور قومی حقوق سے محروم کرنے والی مضبوط مرکز کی حمایتی قوتیں آج بھی 18ویں ترمیم اور 7ویں این ایف سی ایوارڈ کو بدلنے کے لئے تڑپ رہی ہیں جس میں نواز لیگ اور ایم کیو ایم دونوں سیاسی جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔ یہ ان کے تاریخی قومی شعور کی پستی ہے۔

لیکن پاکستان کے باشعور عوام، پاکستان پیپلز پارٹی اور تاریخی طور پر صدیوں سے موجود صوبے کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
18ویں ترمیم 1973 کے آئین کے میں تقریباً ایک سو ترامیم موجود ہیں، ان تمام ترامیم نے نواز لیگ اور مضبوط مرکز کے حامیوں کو غصہ دلایا ہے۔ اگر تاریخ کے اوراق کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمان آبادی والے صوبوں نے اسی بنا پر کانگریس کی مخالفت کیونکہ وہ مظبوط مرکز کی حامی تھی اورمسلم لیگ کے حمایتی اس لئے بنے کہ وہ صوبائی خودمختیاری کی پاسدار تھی۔ 1940 کی قرارداد اس حوالے سے سب سے بڑی دلیل ہے۔ لیکن نواز لیگ اور اسٹیبلشمنٹ مضبوط مرکز کے نام پر آدھا ملک گنوانے کے بعد بھی ہوش میں آنےکیلئے تیار نہیں۔

18ویں ترمیم کے خلاف عمران کی حکومت ہو یا نواز لیگ، وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ عمرانی حکومت نے وفاق میں مختلف ناموں سے صوبوں کو منتقل کی گئی وزارتیں اپنے پاس برقرار رکھیں۔

یاد رہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت سترہ وزارتیں صوبوں کو منتقل کی جانی تھیں جن میں صحت، تعلیم، زراعت اور انسانی حقوق کے محکمے شامل ہیں، لیکن اسٹبلشمنٹ نواز لیگ کے سہارے پر وہ محکمے اسلام آباد میں ہی برقرار رہنے کو مناسب سمجھا، جو چھوٹے صوبوں کے ساتھ ناانصافی اور 1973 کے آئین اور اٹھارویں ترمیم سے انحراف کے مترادف ہے۔

نواز لیگ کے ساتھ ایک اور مسئلہ ساتواں این ایف سی ایوارڈ ہے جو صوبوں اور وفاق کی رضامندی سے نافذ العمل کیا گیا، عین اسی طرح نواز لیگ کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی کہ 18 ویں ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ کو جو آئینی تحفظ حاصل ہے، جس کے تحتت این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم نہیں کیا جاسکتا، اس لئے 18 ویں ترمیم کے آرٹیکل ایک سو ساٹھ کی شق A-3 کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے لیکن سابق وفاقی وزیر برائے مالیات اسحاق ڈار وفاق اور صوبوں کے مابین مالی تقسیم کی تبدیلی پر زور دیا ہے، اور اسی طرح نواز لیگ 18 ویں ترمیم میں متعدد تبدیلیوں کو الیکشن منشور کا حصہ بنانے سے متعلق پالیسی تیار کی ہے، لیکن سخت عوامی رد عمل اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مظبوط موقف کی بنا پر اپنی مذکورہ پالیسی سے پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے، لیکن ان کے مذکورہ عزائم پاکستان کے عوام کے سامنے عیاں ہوگئے ہیں کہ 18 ویں ترمیم اور ساتواں این ایف سی ایوارڈ مذکورہ دونوں جماعتوں کے نشانے پر موجودہیں۔

لیکن سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی تقسیم کی تبدیلی پر زور دیا ہے اور اسی طرح نواز لیگ نے انتخابی منشور کے حصے کے طور پر 18ویں ترمیم میں کچھ تبدیلیاں کرنے کی بات کی ہے، لیکن یہ عوامی دباؤ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ لیکن پاکستانی عوام کو ان کے ارادوں اور ارادوں پر فخر ہو گیا ہے کہ 18ویں ترمیم اور 7ویں این ایف سی ایوارڈ ان کی نشانی ہے۔

ساتواں این ایف سی ایوارڈ کوئی بھی ماڈل مالیاتی تقسیم کا پروگرام نہیں ہے اور عالمی معیار کے مالیاتی تقسیم سے ماورا نہیں ہو سکتا، جوکہ فیڈریشن کے حامل ممالک میں رائج الوقت ہے، اس ایوارڈ میں سب سے زیادہ حصہ آبادی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ صوبہ پنجاب کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ رقبے، غربت اور سالانہ آمدنی کے تناسب سےسندھ اور بلوچستان کا نام آتا ہے، جس سے مذکورہ صوبوں کا حصہ بہت کم مختص کیا جاتا ہے۔ نئی سیاسی تبدیلی کا ایک نیا محرق سامنے آیا ہے کہ نواز لیگ اور ایم کیو ایم پاکستان نے بھی 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پرمتفق نظر آ رہے ہیں۔

ایم کیو ایم کی ہمیشہ ہی پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنی گروہی اور متعصبانہ ذہنیت کی بنا پر بجائے صوبائی حقوق کے مضبوط مرکز کی حامی رہی ہے۔ نواز لیگ اور ایم کیو ایم کا نیا لب و لہجہ یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو جو حصہ دیا جا رہا ہے ، عین اسی طرح صوبے بھی اپنے اضلاع کیلئے مالی ایوارڈ کا اعلان کریں یا وفاق صوبے کو براہ راست رقم دینے کے بجائے اضلاع کو رقم کی منتقلی کرے۔ مذکورہ بات ایک آمر حکمران کے غلط فیصلے کے مترادف ہے، جس کو مذکورہ دونوں سیاسی فریق عملی طور پر ملک میں لاگو کرنا چاہتے ہیں۔

صوبوں کو دیا جانے والا حصہ اسی طرح ہے کہ صوبے اضلاع کے لیے مالیاتی ایوارڈ مقرر کریں یا رقم دینے کے بجائے براہ راست سینکڑوں اضلاع کو منتقل کریں۔ رقم وفاقی صوبے کو جو ایک آمر کے غلط فیصلے کی علامت ہے، جسے دونوں فریق برقرار رکھنا اور نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وفاق 18ویں ترمیم کے تحت اپنے اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں جبکہ وہی جماعتیں صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو غیر موثر بنانے کیلئے رقوم براہ راست اضلاع کو فراہم کرنے کے حق میں ہیں۔

جو براہ راست صوبوں کی خود مختاری اور مفادات سے متصادم ہے، جس کی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان کے عوام کی جانب سے ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ اٹھارویں ترمیم اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ چھوٹے صوبوں کا کارنامہ ہے جس کیلئے وفاق پرست اور قوم پرست جماعتیں دہائیوں سے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان لوگوں کی وہ جدوجہدپاکستان پیپلز پارٹی کی کوششوں سے نہ صرف کامیاب ہوئی ہے اور اس پر عمل درآمد بھی ہوا ہے بلکہ اس کے ثمرات بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کو اس کی روح کے مطابق نافذالعمل کرنے کیلئے جدوجہد کا انتخاب کرنا چاہیے، کیونکہ پر امن جدوجہد سے ہی آئینی و قانونی حقوق حاصل کئے جا سکتے ہیں۔