حلقہ بندیوں میں تبدیلی سے سندھ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار اور ووٹرز تذبذب کا شکار

نئی حلقہ بندیوں کے بعد سندھ کے تین شمالی اضلاع کندھ کوٹ- کشمور، شکارپور اور جیکب آباد میں میں سیاسی طوفان برپا کر دیا، ضلع کشمور میں جہاں پیپلز پارٹی کے مخالفین خوش نظر آ رہے ہیں، وہیں نئی حلقہ بندیوں نے ضلع شکارپور میں پی پی رہنماؤں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے جس سے حلقے کے لاکھوں ووٹرز بھی تذبذب کا شکار ہیں۔

پچھلے الیکشن سال 2018 سے قبل ضلع جیکب آباد کی آبادی لگ بھگ 10 لاکھ، کشمور کی 11 لاکھ اور ضلع شکار پور کی آبادی تقریباً ساڑھے 12 لاکھ تھی، شکار پور کی دو نشستوں سمیت تینوں اضلاع کو قومی اسمبلی کی چار اور صوبائی اسمبلی کی نو نشستیں دی گئی تھیں۔

حالیہ مردم شماری سال 2023 میں ضلع جیکب آباد کی آبادی 11 لاکھ 74 ہزار 97، کشمور کی 12 لاکھ 33 ہزار 957 اور ضلع شکار پور کی آبادی 13 لاکھ 86 ہزار 303 قرار پائی ہے۔

حلقہ این اے 191 جیکب آباد ٹو کشمور کی حالیہ ووٹرز کی تعداد 9 لاکھ 94 ہزار 642 جبکہ این اے 192 کشمور ٹو شکارپور کے ووٹرز کی تعداد 9 لاکھ 17 ہزار 453 ہے ۔

نئی حلقہ بندیوں میں تینوں اضلاع کی مجموعی صوبائی اسمبلی کی نشستیں تو برقرار رکھی گئی ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے اس بار آبادی کا تناسب حقیقت پسندانہ بنانے کے لیے جیکب آباد، کشمور اور شکار پور تینوں اضلاع کو ساتھ جوڑ کر یہاں قومی اسمبلی کے چار حلقے بنا دیئے ہیں۔

ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ستار سردار نے بتایا کہ حلقہ بندیوں کو ترتیب آبادی کے تناسب پر دیا جاتا ہے، 2017 کی پاپولیشن کے مطابق پہلے کی حلقہ بندیاں بنی ہوئی تھیں، حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری سے پاپولیشن میں اضافے پر حلقوں میں تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔

ان کے مطابق ضلع کشمور کی پہلی آبادی کے مطابق این اے کا ایک حلقہ تھا، اس مرتبہ کی پاپولیشن سال 2023 میں اضافے پرعوام کو این اے کی دو نشستیں ملی ہیں، حلقوں سے عوام کو زیادہ تر فوائدے شامل ہیں ، اس سے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنز قریب سے قریب ہوگا، دوسرا عوام کے مسائل بھی کم ہوسکتے ہیں، پہلے ایک ہی امیدوار این اے کا ہوا کرتا تھا اب ایک حلقے کو دو حلقوں میں تقسیم کرکے لوگوں کو اپنے علاقے کی ترقی مسائل کو حل کرنے کا موقعہ فراہم کیا گیا ہے۔

حلقہ بندیاں کس قانون کے تحت بنائی جاتی ہیں

معورف قانون دان ایڈوکیٹ محسن پٹھان جنرل سیکٹری ڈسٹرکٹ بار کندھ کوٹ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ ری پریزنٹیو پیپل ایکٹ 1976 اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 کے مطابق آبادی کے اضافے پر حلقہ بندیوں کی ترتیب دینے کے اہل ہوتے ہیں اسی طرح ملکی حلقہ بندیاں بنائی جاتی ہیں ، جس کا اختیار چیف الیکشن کمیشن کو ہوتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کی نئی تجاویز کے مطابق این اے 190 صرف ضلع جیکب آباد کے علاقوں پر مشتمل ہو گا جس سے کچھ علاقے نکال کر این اے191 میں شامل کر دیئے گئے ہیں ، نئی حلقہ بندیوں سے عام لوگوں کو مزید پرہشانی بھی ہوسکتی ہے ، کچھ پولنگ اسٹیشنز دور ہو سکتی ہیں ، اور ووٹرز جب کندھ کوٹ کے جیکب آباد اور جیکب آباد کے کندھ کوٹ ادھر سے ادھر جائیں گے تو انہیں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے ، البتہ انتخابی امیدواراں کے لیے ایک این کی نشست میں اضافہ ہونے سے فائدہ حاصل ہوا ہے.

آلیکشن کمشنر کے موقف کے مطابق ووٹرز کو آسانی پیدا ہوگی مگر لوگوں نے کہا کہ دونوں حلقوں میں تبدیلی سے عوام کو دشواری کا سامنا کرنا پڑیگا.

سینئیر صحافی غلام یاسین لاشاری نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ این اے 191 کی عوام کو سب سے اہم پریشانی ووٹ کے حصول کی ہوگی ، جب حق راہ دہی ایک ضلع کشمور کا آدمی جیکب آباد کے نمائدے کو ووت تو کریگا مگر اس کی شناخت کی اہمیت کو اجاگر نہیں کر پائے گا ، کیوں کہ ماضی میں ایسا ہی کچھ ہوا تھا ، کہ این اے 197 میں پی پی امیدوار سردار احسان الرحمان مزاری کو تنگوانی کی عوام نے گاڑی کا راستا روک لیا تھا ، لوگ اسے پہنچان ہی نہیں پارہے تھے ، تو یہ معاملات واضع ہیں دوسرا یہ کہ ضلع کشمور کے حلقے کو مکمل طور ختم کرکے عوام کو نقصان دیا گیا یے۔

حلقہ این اے 191 جیکب آباد کم کشمور ہے ، اس میں جیکب آباد کے تعلقہ ٹھل کے علاقے مصری پور ، مراد پور ، ٹھل بھرانو ضلع کشمورسے تعلقہ کشمور کے دو علاقے گلبلو اور بھنر کے علاوہ سارا تعلقہ کشمور اور تعلقہ کندھ کوٹ سوائےغوث پور ٹاؤن اور غوث پور تپہ شامل کیا گیا ہے۔

سماجی رہنما عباس باجکانی کا کہنا ہے کہ این اے 191 کے حلقے کا رہائشی ہوں مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا ہے ، کہ آخر کس بنیاد پر اس طرح کے حلقے توڑ مروڑ کر بنائے گئی ہیں ، جس سے فائدہ صرف پپلز پارٹی کے انتخابی امیدواروں کو ہی ہورہا ہے ، جبکہ عوام کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکا ہے ، پپلز پارٹی کے متوقع امیدواراں کو این اے 191 اور این اے 192 میں شبیر علی خان بجارانی نے جیسے اپنی ہی پسندانہ حلقوں کو ترتیب دیا ہے کیوں کہ اس کی تو پانچوں انگلیاں گیھی میں ہیں ، میرے خیال میں چیف الیکشن کمیشن نے ضلع کشمور کی حثیت کو ختم کرکے انتخابی امیدواراں کو راضی کیا ہے۔

این اے 192 کشمور کم شکارپور میں ضلع کشمور کی تحصیل تنگوانی سے تنگوانی ٹاؤن ،دنیا پور، کرم پور ٹاؤن جبکہ کندھ کوٹ تعلقہ سے غوثپور ٹاؤن اور شکارپور میں سے خانپور، سلطان کوٹ ،لالیوں رستم ٹاؤن اور لکھی غلام شاہ کو شامل کیا گیا ہے۔

این اے 193 شکار پور، ضلع کے تمام علاقوں (سوائے خانپور، سلطان کوٹ ،لالیوں، رستم ٹاؤن اور لکھی غلام شاہ) پر مشتمل ہو گا۔ضلع شکارپور کی آدھی عوام ووٹ کی ادائیگی سے محروم رہی گی کیوں کہ تصیل خانپور غلام شاہ سمیت دیگر علاقوں کے لوگ حلقہ نمبر 192 میں شامل کئے گئے ہیں سیاسی حلقوں سے معلوم کرنے پر کہا گیا کہ ووٹرز کے مسائل میں صحت ، تعلیم ، روزگار کے مسائل کو حل کرنے کے وعدے کرتے ہیں۔

ضلع کشمور کے حصے بخرے ہونے سے کشمور، شکار پور اور جیکب آباد کی سیاست میں بھونچال آ گیا ہے۔ یعنی 12 لاکھ 33 ہزار 957 آبادی پر مشتمل ضلع کشمور کو دو قومی حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے مگر اس کا اپنا الگ قومی حلقہ ایک بھی نہیں رہا ہے ، ضلع کشمور ، جیکب آباد اور شکارپور کی حلقوں کو جوڑ کر حلقے بنانے سے کشمور کی عوام میں مایوسی دیکھنے کو مل رہی ہے ، اور ووٹرز کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

راجا گوپی چند نے بتایا کہ ہماری مینگواڑ برادری کے کافی تعداد میں ووٹ ہیں، پی ایس پانچ کے لیے پی پی امیدوار میر عابد خان سندرانی کو ووٹ دیتے ہیں، جبکہ ماضی میں این اے 197 پر پی پی امیدوار سردار احسان الرحمان مزاری کو ووٹ کیا تھا ، مگر افسوس کی بات ہے کہ مزاری صاحب کبھی ووٹرز کے مسائل کو حل کرنے کے لیے چہرا تک نہیں دیکھا ہے ، اب تو ضلع کشمور کو تقسیم کرکے دو نشستوں کے اضافے پر یہ فائدہ ضرور ہوا ہے ، کہ دونوں این اے کے امیدوار در در ووٹرز کے پاس ضرور جائیں گے ، پہلے ایک ہی امیدوار ہوا کرتا تھا، اب دو دو امیدوار آئیں گے ، میرے خیال میں ووٹرز کی عزت میں اضافہ بھی ہوگا اور انتخابی امیدوار ووٹرز کے مسائل بھی حل کریں گے ۔

نئی حلقہ بندی سے پیدا ہونے والی صورتحال میں ضلع شکارپور میں پی پی مخالف سابق ایم پی ایز عابد حسین جتوئی اور آغا تیمور خان مطمئین اور متحد بھی ہیں ، لیکن پی پی رہنما اختلافات کا شکار نظر آرہے ہیں۔

سابق ایم این اے غوث بخش خان مہر، سابق صوبائی وزیر امتیاز احمد شیخ، سابق سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج خان درانی، سابق ایم پی اے میر بابل خان بھیو نے ذاتی اثر و رسوخ کی بنیاد پر اپنے حمایت یافتہ علاقوں کو اپنے حلقوں میں شامل کرانے کے لیے الیکشن کمیشن میں الگ الگ اعتراضات بھی جمع کرائے ۔مگر ان کے اعتراضات خارج گئے حلقے تبدیل نہیں ہوسکے ۔

ضلع کشمور میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ہمیشہ کامیاب ہونے والے امیدوار میر شبیر علی خان بجارانی کے ایک بڑے ووٹ بینک کو ضلع شکارپور کے حلقے میں شامل کیا گیا ہے، اس بار قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں ،ان کے والد میر ہزار خاں مرحوم یہاں سے ایم این اے رہ چکے ہیں۔

میر شبیر علی خان بجارانی کا موقف

سابقہ صوبائی وزیر میر شبیر علی خان نے کہا کہ حقلہ بندیاں بھترین انداز سے بنائی گئی ہیں ، جس سے ہمارے ضلعے کی عوام کے لیے موثر ثابت ہوں گے ، انہوں نے کہا کہ حلقہ بندویوں کے اعتراضات اس لیے جمع کرائے ہیں تاکہ کچھ یوسیز اس میں شامل ہوسکے، چونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تینوں اضلاع کو ملانے کے بعد تاریخ میں پہلی بار بہترین طرز عمل سے حلقے بنائے ہیں ، جن سے میں مطمعن ہوں، اور میں خود این اے 191 کی نشست سے الیکشن میں حصہ لونگا پاکستان پپپلز پارٹی کا ہر فیصلہ میرے لیے حتمی ہوگا ، اس وقت اثر اسوخ کی بات کی جائے تو مذکورہ دونوں حلقوں میں میرا اثر بھی ہے اور انتخابات میں میرے اپنے علاقے کے لوگ شامل ہیں ، حلقوں کی حلقہ بندیوں کو میرٹ کے بنیاد پر بنایا گیا ہے۔

"تنگوانی تعلقہ اورغوث پور ٹاؤن میں آباد ہے۔ بجارانی، سندرانی، ڈہانی، تیغانی، باجکانی، شیرانی، بھلکانی، ملک، گولا، کھوسہ اور دیگر برادریاں زیادہ تر میر شبیر علی خان بجارانی کے حمایتی ہیں۔

نئی حد بندی کا فائدہ میر شبیر علی خان بجارانی کو ہوگا تاہم مقابلہ جے یو آئی امیدوار ڈاکٹر ابراہیم جتوئی سے متوقع ہے ۔

سابقہ ایم این اے سردار احسان الرحمان مزاری کا موقف

"انہوں نے کہا کہ میرے ماموں سردار سلیم جان مزاری جو حکم کریں گے ، اس پر عمل کرونگا باقی پارٹی کے حکم پر میں نے کاغذات این اے 191 پر جمع کروا دیئے ہیں ۔جس کا جے یو آئی امیدوار شھزین خان بجارانی سے مقابلا متوقع ہے۔ تاہم حالیہ الیکشن سیاسی وڈیروں کے لیے بڑا امتحان ہو گا۔”

دوسری جانب شکارپور اور کشمور سے پیپلز پارٹی کے متعلقہ امیدوار حلقہ بندیوں کے حوالے سے جمع اعتراضات خارج ہونے پر مایوسی کا شکار نظر آرہے ہیں۔

سابق ایم این اے ڈاکٹر محمد ابراہیم جتوئی نے جے یو آئی کی ٹکیٹ سے این اے 192 سے پی پی امیدوار سے شبیر علی خان سے مقابلا کرونگا مطالبہ تھا کہ کشمور ٹو شکارپور کے این اے 192 سے، ہمایوں اور جاگن کو این اے 193 میں شامل کیا جائے۔کیوں کہ این اے 193 ضلع شکارپور کی نشست سے ہے ، جبکہ اسی ضلع کے مذکورہ علاقے این اے 192 میں شامل کرکے عوام سے زیادتی کی گئی ہے ۔

دوسری جانب سابق ایم پی اے بابل خان بھیو نے کشمور ضلع کے حصے خانپور کے تپہ جو لکی تعلقہ پر مشتمل این اے 192 بنانے کی تجویز دی تھی ، انہوں نے کہا کہ جاگن شہر شکارپور اور گڑھی یاسین تعلقہ اور خانپور کے بقیہ حصوں کو ملاکر این اے 193 میں شامل کرنے کی درخواست بھی دی تھی ، اس درخواست کی وجہ یہ میرے ووٹرز کو اپنی ہی حلقے سے نکال کر من پسندانہ حلقوں کو ترتیب دیا گیا ہے ۔

ضلع شکارپورکےصوبائی حلقوں پر فراز امتیاز شیخ نے اعتراضات جمع کرائے تھے ، ان کے مطابق پی ایس 9 ، پی ایس7، اور پی ایس 8 کو حتمی قرار دیا جائے۔فراز امتیاز شیخ کے مطابق حلقوں کی تبدیلی سے انتخابات میں ووٹرز کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔

ایڈوکیٹ عبدالغنی بجارانی

قومی عوامی تحریک پارٹی ” کہنا ہے کہ حلقوں میں تبدیلی سے تینوں اضلاع کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا رہے گا چیف الیکشن کمیشن نے امیدواران کے اعتراضات کو خارج کرکے حلقوں کو تبدیل کیا ، مگر بات تو یہ ہے کہ عام آدمی اپنے حلقے کے متعقل اسلام آباد کے چکر تو نہیں کاٹ سکتا ہے، اسی لیے عام آدمی ووٹر کے حثیت سے کسی بھی امیدوار کے انتخاب کے لیے مسائل سے دو چار ہوں گے ۔

سال 2024 عام انتخابات میں حلقوں کی تبدیلی سے عوام میں مایوسی دیکھنے کو مل رہی ہے ، امیدوران سیاسی سماجی رہنماوں نے حلقوں کی تبدیلی پر افسوس کا اظہار کیا ہے ، لوگ کہتے ہیں ، کہ اب کندھ کوٹ کا جیکب آباد اور کشمور کا شکارپور کے علاقوں کے حلقوں کو ملا کر انتشار کا المیہ دے رہے ہیں۔