جیکب آباد میں وڈیرہ شاہی اور سرداری نظام سے انتخابی عمل غیر شفاف

الیکشن جیتنے والے قومی و صوبائی نمائندے اپنی اہنی اسیمبلیوں میں پہنچ کر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم الیکشن جیت کر آئے ہیں مگر ہمیشہ کہا یہ جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ نمائندے یا تو دھاندلی کرکے جیت جاتے ہیں یا پھر وڈیروں سے ووٹ خرید کرکے جیت جاتے ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ جب وڈیرے سردار اپنی قوم اور اپنے کاشتکاروں کو استعمال کرکے ان سے ان کی مرضی کے خلافِ ووٹ لیا جاتا ہے، یہ سردار وڈیرے سال بھر ان کاشتکاروں سے اپنی ذاتی زمین پر کاشت بھی کرواتے رہتے ہیں اور انہیں اپنی جاگیر بول کر ان کو ان کی مرضی کے خلافِ اور اپنی مرضی سے ووٹ دینے کے لیے پابند کرتے ہیں۔

مقامی رہنما اور پاکستان پرچم پارٹی کے چیئرمین ملک الطاف کا کہنا ہے کہ یہ تو معمول کی بات ہے کہ یہ وڈیرے سردار اپنی قوم سے دباؤ کے ذریعے زبردستی ووٹ لیتے ہیں، مگر آج کل حالات تھوڑے مختلف بھی ہیں ہر کوئی ان کا کہنا نہیں مانتا کچھ لوگ ہیں جو آج بھی ان کے کہنے پر ہیں، ان کے آپس میں جھگڑے بھی بہت زیادہ ہوتے رہتے ہیں، یہ بلکل سچ ہے کہ یہ وڈیرے سردار ان عوام پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ آج کل جمہوریت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ وڈیرا شاہی اور سرداری نظام ہے تو غلط نہ ہوگا، کیوں کہ من پسند اور رواجی طور پر قائم حلقہ بندیوں کے باعث کچھ ابادی شہری و کچھ دیہی علاقوں پر مشتمل ایک قومی و صوبائی حلقہ تیار ہوتا ہے، اگر مکمل شہری آبادی کو ایک ہی حلقے میں ووٹ کا اختیار دیا جائے تو وہ پڑھا لکھا ہر شخص اپنی مرضی سے بہتر نمائندے کا انتخاب کرے گا، پڑھی لکھی عورت بھی ووٹ سوچ سمجھ کر دے گی، مگر دیہی علاقے کے مرد اپنے سردار یا مقامی زمیندار وڈیرے کے حکم پر اور ان کی خواتین ان غلام بنے والے مردوں کے حکم پر ووٹ دیتی ہیں، یہ وڈیرے سردار ملک کی کروڑوں قسمتوں پر قابض ہیں، ویسے یہ فقط آج کل کی بات نہیں نصف صدی سے وڈیرا شاہی اور سرداری نظام نے جمہوریت کو باندی بنا کر رکھا ہے، وہ آج بھی جاہ و جلال کے ساتھ ہم پر مسلط ہیں، ان کی مرضی اور مدد کے بغیر بڑے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات کامیابی حاصل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ وڈیرا شاہی اور سرداری نظام کی وجہ سے عوام اپنے حقوق سے محروم ہے، تعلیم صحت سمیت سینکڑوں مسائل ہیں جو ان غریب بے سہارا لوگوں سے دور ہیں،

مقامی رہنما اور مھران سوشل فورم کے چیئرمین عبدالاحئی سومرو کا کہنا ہے کہ بیس تیس سالوں سے مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتیں آئی اور ان کے نمائندے جیکب آباد سے بھی کامیاب ہوئے وہ جب ایوانوں میں آئے تو کیا جیکب آباد میں ایک بھی یونیورسٹی تعمیر ہوئی ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہاں پر منظور ہونے والی یونیورسٹی بھی یہاں سے باہر منتقل کرائی گئی تھی، یہاں کوئی بھی میڈیکل یونیورسٹی آج تک تعمیر ہوئی ہے ؟ عوام کے ووٹ سے ایوانوں میں بیٹھنے والوں سے میرا مطالبہ ہے کہ برائے کرم ان کے بچوں کی تعلیم اور صحت پر توجہ دی جائے، ان کے ووٹ کی طاقت سے ہی آپ کامیاب ہوتے ہو، آپ کا بھی ان کی خدمت کرنا فرض ہے۔

اصل میں یہ وڈیرے سردار ملک کی آزادی سے پہلے سے سرگرم ہیں، ملک پر قابض انگریزوں نے لگان جمع کرنے کے لئے وڈیروں کا خوب استعمال کیا اور ملک پاکستان کی آزادی کے بعد سینکڑوں ہزاروں ایکڑ زرعی زمینیں اپنے اپنے من پسند وڈیروں کے نام کرکے چلے گئے، پہلے صدر ایوب خان اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے زرعی اصلاحات کے ذریعے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین وڈیروں سے واپس کروائی مگر بھٹو کی زرعی اصلاحات کو نوکر شاہی کی مدد سے ناکام بنایا گیا، سندھ اور بلوچستان کے زمینداروں نے اپنے اپنے کاشتکاروں کی مدد سے پہلے زمین اپنے کاشتکاروں کے نام کی بعد میں بھٹو کے جانے کے بعد واپس اپنے اپنے نام کردی، یہی وجہ ہے کہ پرانے دور کے درجنوں زمیندار جو خود تو گذر گئے ہیں مگر ان کی نسلیں سینکڑوں، ہزاروں ایکڑ زرعی زمینوں کے مالک بنے ہوئے ہیں، سالوں سے قابض یہ وڈیرے سردار پہلے دیہی علاقوں تک محدود ہوتے تھے، وہ اپنی جاگیر اور مختلف دیہاتوں کی نمائندگی کرتے نظر آتے تھے مگر آج کل ملک بھر کے مختلف علاقوں اور خاص طور پر اندروں سندھ کا کوئی بھی نمائندہ وڈیروں کا محتاج لازمی ہوتا ہے, بھلے وہ خود وڈیرا ہو یا سردار مگر دیگر وڈیروں کے ہزاروں ووٹ بھی حاصل کرنے کے لئے دیگر وڈیروں کی محتاجی بھی لازمی برداشت کرنی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بھٹو کے بعد کسی نے بھی وڈیروں جاگیر داروں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی نہ کوئی ایکشن لیا گیا، صدر مشرف نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی وڈیروں سرداروں کو اہمیت بخشی، ضلع ناظم و نائب ناظم وڈیرے سیاست میں بڑی تعداد میں آنے لگے۔

مقامی زمیندار سردار سخی عبد الرزاق کھوسو کا کہنا ہے کہ یہ علاقائی نیچر ہے، علاقائی نیچر کے باعث یہ عوام اپنے سردار کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں، ہر علاقے کے وڈیروں سرداروں اور میروں کی اپنی اپنی حیثیت ہوتی ہے، کوئی محبت سے چل رہا ہے تو کوئی ظلم ہے ساتھ چل رہا ہے، کوئی دائیں بائیں جانب قوتوں کے ساتھ چل رہا ہے، کوئی رٹائرڈ پولیس تو کوئی رٹائرڈ اسٹیبلشمنٹ کا بندا ہوتا ہے، ان کی عوام ان کا کہنا مانتے ہیں ان کی مرضی سے ووٹ دیتے ہیں، یہ سچ ہے کہ کچھ سردار وڈیرے پیسے وصول کرتے ہیں، اپنا ظمیر بیچھتے ہیں، وہ چھپ بھی نہیں سکتے عوام کے سامنے ظاہر ہوجاتے ہیں، سردار سخی عبد الرزاق کھوسو نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ مجھے آج تک کسی نے بھی ڈائریکٹ پیسوں کی آفر نہیں کی اور نہ ہی مینے پیسے لیکر کسی غلط امیدوار کو ووٹ نہیں کروایا، میں جس پارٹی کا حصہ رہا ہوں ووٹ بھی اسی کو دیا ہے۔

ہمارے ضلع جیکب آباد میں بھی پچاس سالوں سے کسی بھی دیہاتوں یا دیہی علاقوں میں کوئی خاص ترقیاتی کام نہیں کرایے گئے، درجنوں دیہاتوں سے ہزاروں کے حساب سے ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ان علاقوں کے ووٹروں کی مدد سے بار بار کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود ان علاقوں میں پانچ فیصد بھی نوازشات نہیں ہوئے، آج بھی یہ ہزاروں ووٹ کے مالک درجنوں دیہات اچھی تعلیم سے محروم ہیں، اسکول تو ہیں مگر بنام کے اسکول بنے ہوئے ہیں، صحت کا نظام نہ ہونے کے برابر ہیں، کروڑوں کے فنڈز جاری ہونے کے باوجود سڑکوں کا مسئلہ بھی سالوں سے حل نہ ہو سکا، یہ آج بھی آلودہ پانی پیتے ہیں یا زمین سے جر کا پانی پینا نصیب ہوجاتا ہے۔

یہ وڈیرے سردار الیکشن میں اگر خود حصہ نہ بھی لیں تو بھی ان کو کروڑوں کا فائدہ ملتا ہے، کچھ وڈیرے سردار تو اپنی قوم اور کاشتکاروں کا ووٹ بیچتے بھی ہیں، وہ کسی بھی امیدوار سے ووٹ کا وعدہ کرتے ہیں تو اپنے لوگوں کو مکمل پابند کرتے ہیں کہ ووٹ ہماری مرضی کے امیدوار کو دیں، *رابطہ کرنے پر یہاں کے مختلف لوگوں نے بتایا کہ ہمارے سرداروں نے ہمیں پابند بنا رکھا ہے کہ ووٹ ان کی مرضی سے دینا ہوتا ہے،
مقامی کاشتکار میر گل جکھرانی نے بتایا کہ ہمارے گاؤں تھرڑی جاگیر میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر ووٹ ان کی مرضی کے امیدوار کو کم ملیں یا ہمارے گھر کی پولنگ میں سے کچھ ووٹ دوسرے امیدوار کو ملے تو وہ سب کو دھمکاتے ہیں اور گاؤں سے نکل جانے کا حکم جاری کرتے ہیں، ان کو یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ پچاس یا سو ووٹ مخالف امیدوار کو کس کس نے دیے ہیں مگر وہ سزا سب کو دینا چاہتے ہیں*آخر کار معافی تلافی اور سردار کے حکم کے بغیر آئندہ انتخابات میں کسی غیر کو کوئی ایک ووٹ نہ ملنے کی خاطری کے بعد دوبارہ رہنے کی اجازت دی جاتی ہے،

2018 کے انتخابات میں پہلی بار عوام اپنے سرداروں کے حکم کے خلاف گئی، پہلی بار عوام نے اپنی مرضی سے ووٹ دیا، قومی و صوبائی امیدواروں کے اپنے گھروں کی پولنگ اسٹیشنز میں مخالف امیدوار کو سینکڑوں ووٹ حاصل ہوئے، ہمیشہ غیر شفاف رہنے والے انتخابات میں عوام نے اپنا کھل کر ان سرداروں وڈیروں سے اپنا انتقام لیا، وہ جانتے تھے کہ انجام کیا ہوگا مگر ہزاروں ووٹ مخالف امیدوار کو ملے تو یہ ووٹ بیچنے والے سردار وڈیرے خاموش رہے کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ آج ہزاروں مخالف ہوئے ہیں ہمارے غلط فیصلے کہیں تمام کو ہمشیہ کے لئے باغی نہ بنادے۔

ایسا نہیں کہ فقط پیپلز پارٹی امیدوار نے وڈیروں سرداروں کا سہارا لیا یہاں تو پی ٹی آئی کے امیدوار کے ساتھ بھی متعدد سردار اور وڈیرے ساتھ تھے، جیکب آباد شہر کے لوگ شہری آبادی نے بھی کھل کر اپنے ووٹ کا درست انتخاب کیا، ان کا کہنا ہے کہ تین بار مسلسل ایم این اے رہنے والے پیپلز پارٹی امیدوار سے ہم مایوس تھے تو ہم نے ووٹ کی مدد سے اپنا بدلہ لے لیا۔ پیپلز پارٹی امیدوار سے مایوس عوام کامیابی حاصل کرنے والے محمد میاں سومرو سے بھی زیادہ خوش نظر نہیں آتے، شہر سمیت ضلع بھر کے متعدد علاقوں میں ٹف ٹائیل روڈز بنانے سمیت مختلف دیگر کام کروانے کے باوجود ہزاروں ووٹ رکھنے والے وڈیرے سردار مایوس ہوکر ان سے بھی دور چلے گئے ہیں، شہری آبادی بھی ان سے بہت مایوس نظر آتی ہے۔

جیکب آباد کی ضلعی الیکشن کمیشن کے افسر نصر اللہ کا کہنا ہے کہ ہمارا کام الیکشن کے دن ووٹ دیانتداری سے کاسٹ کروانا ہے، ہمارے پاس کوئی شکایت نہیں آئی کہ یہ وڈیرے سردار عوام سے زبردستی ووٹ وصول کرتے ہیں۔

رابطہ کرنے پر مقامی سردار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ہماری عزت کرتے ہیں وہ ہمارے بچوں کی طرح ہیں وہ ہماری عزت کی خاطر ہماری مرضی کے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں اگر وہ کسی غیر حمایتی امیدوار کو بھی ووٹ دے دیتے ہیں تو ہم کبھی انہیں کچھ برا نہیں کہتے۔ اب دیکھنا یہ ہے آئندہ انتخابات میں عوام اپنی مرضی چلا سکتی ہے یا ایک بار پھر ان وڈیروں سرداروں کی مرضی چلے گی اور عوام کے بجائے ان وڈیروں کی مرضی کا امیدوار کامیاب ہوگا۔