کے ڈی اے کے تحت دارالحکومت کراچی کے قریب 14 ہزار ایکڑ زمین پر رہائشی منصوبہ شروع کیے جانے کا امکان

IMG-20240102-WA0001

کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کی جانب سے میگا ہاؤسنگ اسکیم کے لیے ناردرن بائی پاس کے ساتھ ہزاروں ایکڑ اراضی الاٹ کرنے کے لیے سندھ حکومت سے رجوع کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا۔

منصوبے کے تحت کے ڈی اے سندھ حکومت سے نادرن بائی پاس پر کم سے کم 14 ہزار ایکڑ زمین دینے کا مطالبہ کرے گا، جس پر رہائشی اسکیمیں بنائی جائیں گی۔

انگریزی اخبار ڈان کے مطابق دو سال قبل کے ڈی اے کے بورڈ آف گورنرز نے نئی ہاؤسنگ اسکیم کی تیاری کی منظوری دی تھی اور اس کے لیے زمین کے حصول کے لیے سندھ حکومت سے رابطہ کیا گیا تھا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر صوبائی حکومت سے زمین نہیں لی جا سکے تھی۔

اخبار کو منصوبے سے متعلق معلومات رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ کراچی شہر کی حدود میں کوئی زمین دستیاب نہیں ہے اور شہر کے مضافات میں سرکاری زمین ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) یا لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے انتظامی کنٹرول میں آتی ہے۔

کے ڈی اے کو سندھ حکومت نے 1957 میں بنایا تھا، کے ڈی اے نے اب تک 45 ہاؤسنگ اسکیموں پر 700,000 سے زیادہ پلاٹس بنا کر فروخت کیے، اس کی جانب سے سے چار اسکیمیں شاہ لطیف ٹاؤن، ہاکس بے، تیسر ٹاؤن اور ہلکانی ٹاؤن کو 1993 میں ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے کو منتقل کیا گیا تھا۔

ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے کو منتقل کی گئی اسکیمیں، تاحال مطلوبہ نتائج نہیں لا سکیں کیونکہ تین دہائیاں گزرنے کے باوجود ترقیاتی انفراسٹرکچر ابھی تک تیار نہیں ہو سکا۔

کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے تصدیق کی کہ ان کا ادارہ زمین کے حصول کے لیے سندھ حکومت سے جلد رابطہ کرے گا۔

ڈائریکٹر جنرل نوید انور کا کہنا تھا کہ ناردرن بائی پاس کے علاقے میں 14 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی کے ڈی اے کو رعایتی نرخوں پر الاٹ کرنے کی سمری جلد وزیر اعلیٰ کو بھیجی جائے گی، جس کی ادائیگی چار مساوی قسطوں میں کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ بورڈ آف ریونیو (BoR) سے بھی درخواست کی جائے گی کہ حصول کے مقصد کے لیے دیہہ مٹھا گھر اور دیہہ ماہیو میں نجی زمین کی ملکیت کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی سالوں سے مکانات کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس طلب کو پورا کرنے کے لیے شہر میں ہر سال 100,000 نئے رہائشی یونٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔

کے ڈی اے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہر کا کل رقبہ 3800 مربع کلومیٹر ہے جس میں سے صرف 1350 مربع کلومیٹر کو رہائشی سمجھا جاتا ہے اور تقریباً 1000 مربع کلومیٹر باقاعدہ طور پر ایک کروڑ کی آبادی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا جبکہ باقی 350 مربع کلومیٹر پر باقی تعمیراتی کمپنیوں نے لوگوں کی رہائش کی مانگ کو پورا کیا۔

انہوں نے کہا کہ شہر میں ایک کمرے میں اوسطاً 10 افراد قیام پذیر ہیں جس کے نتیجے میں غیر صحت مند حالات اور تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔ مزید براں، کچی آبادیوں میں رہنے والے خاندان غیر صحت مند حالات کی وجہ سے وبائی امراض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کے ڈی اے کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے کیونکہ اسے اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرمنٹ کے واجبات ادا کرنے تھے اور مذکورہ منصوبے سے کے ڈی اے کے مالی حالات بھی بہتر ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کے ڈی اے نے نگران صوبائی حکومت سے ملازمین کی بقایا جات کی ادائیگی کے لیے 2 ارب روپے کی یک وقتی گرانٹ کے لیے رابطہ کیا تھا، اس کے علاوہ ہم اپنے ملازمین کے پنشن کے واجبات کی ادائیگی کے لیے فنڈز بنانے کے لیے کچھ پلاٹوں کی نیلامی پر بھی کام کر رہے ہیں۔