سندھ چائلڈ میریج ایکٹ غیر فعال، صوبے بھر میں کم عمری کی شادیاں جاری

سندھ میں چائلڈ میرج یعنی کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے اگرچہ صوبائی حکومت نے ایک دہائی قبل ہی قانون بنا دیا تھا لیکن حقیقی معنوں میں آج بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا۔

سندھ حکومت کے کسی بھی ادارے کے پاس چائلڈ میرج سے متعلق کوئی مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی قانون کے مطابق کسی ایک ادارے کو کم عمری کی شادی رکوانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

ویب سائٹ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق سندھ میریج ایکٹ کے مطابق ضلعی ماتحت عدالتوں، پولیس اور مانیٹرنگ کمیٹیوں کو کم عمری کی شادیاں روکنے میں کردار ادا کرنا تھا لیکن یہ تمام سندھ میں چائلڈ میرج کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

سندھ اسمبلی نے سندھ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کو جون 2014 میں منظور کیا تھا اور صوبائی حکومت نے اس کے رولز کو دو سال کی تاخیر سے 2016 میں جاری کیا تھا۔

سندھ حکومت نے قیام پاکستان سے قبل انگریز دور میں بنائے گئے چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 میں ترامیم کرکے اور اس کا نام تبدیل کرکے نیا قانون منظور کروایا تھا۔

انگریز دور کے قانون میں کم عمری کی شادی کروانے والے ذمہ داروں کو انتہائی کم سزائیں شامل تھیں، جنہیں سندھ میں بنائے گئے قانون میں قدرے سخت کیا گیا تھا۔

چائلڈ میرج ایکٹ کے قواعد و ضوابط وزارت خواتین و بہبود آبادی کی جانب سے جاری کیے گئے تھے کیوں کہ کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ذمہ داری مذکورہ وزارت پر ڈالی گئی تھی۔

کم عمری کی شادی کو روکنے کےلیے قواعد و ضوابط بنائے جانے کے دو سال بعد 2018 میں پہلی بار چائلڈ میرج مانیٹرنگ کمیٹیاں بنائی گئیں اور صوبائی کمیٹی کے چیئرمین کی ذمہ داری وویمن ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری کو سونپی گئی، اس میں پولیس، سوشل ویلفیئر اور وزارت قانون سمیت دیگر وزارتوں اور محکموں کے سیکریٹریز یا ڈائریکٹر جنرلز (ڈی جیز) بھی شامل تھے۔

صوبائی کمیٹی کے علاوہ سندھ کے مختلف اضلاع میں متعلقہ ڈپٹی کمشنرز (ڈی سیز) کی سربراہی میں بھی ضلعی مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں اور تمام کمیٹیوں میں صحافیوں، وکلا اور انسانی حقوق کے رہنمائوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

چائلڈ میرج پر پابندی کے قانون کے باوجود سندھ میں کم عمری کی شادیاں جاری ہیں، نگران وزیر قانون

چائلڈ میرج ایکٹ کے رولز کے تحت حکومت سندھ کو کم عمری میں شادی کی کوشش کے دوران بازیاب کرائے جانے والے بچوں کی حفاظت اور رہائش کے لیے چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز بھی قائم کرنے تھے جو کہ حکومت کو بچوں کی حفاظت کے لیے موجود دوسرے قوانین کے تحت بھی بنانے تھے اور انہیں چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے تحت چلایا جا رہا ہے۔

سندھ چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 میں بچوں کی تشریح 18 سال سے کم عمر کے ہر فرد کے طور پر کی گئی ہے اور قانون میں کہا گیا ہے کہ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی کم سے کم عمر 18 برس ہوگی اور اس سے کم عمر افراد کو بچے تصور کیا جائے گا اور بچوں کی شادی پرلڑکی اور لڑکے کے والدین اور سرپرستوں کو تین سال تک قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ، دونوں میں سے کوئی ایک سزا یا پھر دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔

قانون کے تحت ضلعی عدالتوں کو چائلڈ میرج کے واقعات کا ازخود نوٹس لینے اور اس پر قانونی کارروائی کے اختیارات دیے حاصل ہوں گے جب کہ کوئی بھی شخص عدالتوں میں بھی کم عمر بچوں کی شادی رکوانے کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔

اسی طرح پولیس کو بھی چائلڈ میرج روکنے کے اختیارات دیے گئے ہیں اور وہ بھی ایسے واقعات سامنے آنے کے بعد قانون کے تحت کارروائی کرکے بچوں کی شادیاں کروانے والے تمام افراد کو حراست میں لینے سمیت بچوں کو بھی اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔

قانون میں کم عمری کی شادی کروانے والے ملزمان کے اقدام کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا ہے، یعنی ان کی ضمانت نہیں ہوسکے گی لیکن اب تک کے سامنے آنے والے کیسز کا جائزہ لیا جائے تو حالات اس کے برعکس ہیں۔

سندھ کے نگران وزیر قانون عمر سومرو بھی حال ہی میں اس بات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ صوبے میں چائلڈ میرج قوانین پر عمل نہیں ہو رہا اور کسی بھی ادارے کے پاس چائلڈ میرج سے متعلق کوئی مستند ڈیٹا اور معلومات دستیاب نہیں۔