پنجاب کے علاقے چولستان کو پانی دینے پر سندھ حکومت کو تحفظات، وزیر اعظم کو خط لکھ دیا

پانی کے تقسیم کار ادارے ارسا کی جانب سے چھوٹے صوبوں کے حصے سے پنجاب کے علاقے چولستان کو زمین اباد کرنے کے لیے پانی فراہم کرنے کی این او سی جاری کرنے پر سندھ حکومت نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم کو شکایتی خط لکھتے ہوئے این او سی موخر کرنے کا مطالبہ بھی کردیا۔

ارسا نے گزشتہ ہفتے چولستان کی غیرآباد زمین کو آباد کرنے کے لیے اضافی پانی دینے کی اجازت دی تھی، جس سے سندھ میں پانی کی سنگین قلت پیدا ہوگی۔

اب نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے نگران وزیر اعظم کو خط لکھ کر چولستان کو پانی دینے کا فیصلہ نئی حکومت کے آنے تک موخر کرنے کی اپیل کردی۔

وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو خط لکھ دیا ہے جس میں ارسا کی جانب سے پنجاب کے چولستان کے لیے پانی کی این او سی جاری کرنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سندھ کے مفادات کو نقصان پہنچانے والا کوئی بھی فیصلہ مستقبل میں کسی بھی حکومت کے لیے بہت مشکل ہو گا۔

ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق ارسا نے 17 جنوری 2024کو پانی سے متعلق رپورٹ جاری کی تھی۔ ممبر ارسا سندھ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں محکمہ آبپاشی پنجاب نے چھوٹے چولستان میں زراعت کی توسیع کے لیے پانی کا این او سی جاری کرنے کی تجویز پیش کی، لنک کینال پروجیکٹ کے ذریعے پانی کی منتقلی کی اس تجویز میں 4122ای ایف ایس کی ڈیزائن کی گئی ہے ۔

فیڈر چینل کی تعمیرسے سلیمانکی ہیڈ ورکس تا بہاولنگر اور بہاولپور اضلاع کے فیڈ ایریاز کو بند کرنا شامل ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ہمیں چھوٹے چولستان کو پانی کی فراہمی کے لیے این او سی جاری کرنے پر شدید خدشات ہیں، اس متعلق کوئی معلومات شیئر کیے بغیر خفیہ اور اچانک این او سی جاری کردیا گیا۔

خط کے مطابق پانی معاہدے کے تحت پنجاب کا حصہ پہلے ہی موجودہ نہری نظام کے لیے زیادہ مختص ہے، خریف کے دوران پنجاب کا 2007ء کے دوران 37.07 ایم اے ایف پانی معاہدے کے مقابلے میں 37.7 ایم اے ایف زیادہ استعمال ہے اس کا مطلب ہے کہ صوبہ پنجاب کی موجودہ نہری گنجائش اس کے پانی کے معاہدے سے زیادہ ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ واٹر ایکارڈ کے پیرا 4 کے مطابق پانی کی دستیابی کا اس وقت تک تعین نہیں کیا جاسکتا جب تک کوٹری بیراج کے نیچے پانی کو معاہدے کے پیرا 7 کے مطابق حتمی شکل نہیں دی جاتی، اس لیے واٹر ایکارڈ 1991ء کے پیرا 4 کے تحت پروجیکٹ کو پانی فراہم نہیں کیا جا سکتا، مجوزہ منصوبے کے لیے پنجاب حکومت کی پیشکش سال 1976-2022 کے دوران کوٹری بیراج کے نیچے اوسطاً 27.091 MAF کے لیے پانی کی دستیابی کی نشاندہی کرتا ہے۔

نگران وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم گزشتہ 22 برس 2000-2022 کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اوسطاً پانی کے اخراج کی شرح سمندری بہاؤ کوٹری بیراج تقریباً 14.02 ایم اے ایف رہ گئی ہے، پانی کی کمی کا رجحان اَپ اسٹریم میگا واٹر پروجیکٹس کی ترقی اور ہندوستان کے ذریعے مشرقی دریاؤں پر آبی منصوبوں کی ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے ساتھ جاری رہے گا۔

نگران وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ ارسا کے این او سی جاری کرنے سے سندھ کے پانی کے حقوق کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے، سندھ کے عوام کی جانب سے اپیل کرتا ہوں کہ منتخب حکومت آنے تک اس فیصلے کو مؤخر کیا جائے، یہ این او سی جاری کرنا نگراں حکومت کے مینڈیٹ سے باہر ہے، سندھ کے مفادات کو نقصان پہنچانے والا کوئی بھی فیصلہ مستقبل میں کسی بھی حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا۔