سندھ ناری ڈے منانے کی ضرورت کیوں ہے؟
اس بار سندھ کے سماجی رہنمائوں، تعلیم دانوں، قانون دانوں، میڈیا ورکرز اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد سمیت زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات سے وابستہ لوگوں نے سندھ ناری ڈے منانے کا اعلان کیا ہے جو کہ عالمی یوم خواتین کے موقع پر 10 مارچ کو ایک فیسٹیول کی طرح منایا جائے گا۔
سندھ سمبیت دنیا بھر میں عالمی یوم خواتین 8 مارچ کو منایا جاتا ہے اور سندھ میں ہر سال عورتوں کےعالمی دن کے موقع پرعورت مارچ منعقد کیا جاتا ہے اور مارچ کے آتے ہی سندھ میں اس کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔
اور اس بار بھی عورت مارچ سے وابستہ خواتین کارکنوں، حقوق کے علمبرداروں اور حقوق نسواں کے لیے آواز بلند کرنے والوں نے اپنی مہم شروع کردی ہے۔
گزشتہ چند سال میں عورت مارچ نے ایک شہری حقوق کی تحریک کے طور پراہمیت حاصل کی ہے جو خواتین کے لیے مساوات اور سماجی انصاف کی وکالت کرتی ہے اور زندگی کے تمام شعبوں سے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو راغب کرتی ہے۔
عورت مارچ کو دائیں بازو کے گروہوں اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا رہتا ہے جو مارچ کو ثقافتی اور مذہبی اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہیں، ان نعروں کا حوالہ دیتے ہوئے جو مارچ کے شرکا نے پلے کارڈز کی صورت میں عورت مارچ کے دوران اٹھا رکھے ہوتے ہیں۔
مذہبی اور تنگ نظر گروہوں کی جانب سے عورت مارچ کی مہم چلانے والوں اور منتظمین کو ہراساں کیا جاتا ہے، انہیں نہ صرف آن لائن ٹرولنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں ریپ اور جسمانی حملوں کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں، تاہم اس باوجود عورت مارچ کی مہم شہری حقوق کی تحریک کے طور پر سماجی مسائل پر آواز اٹھانا جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اس کا اثر اور رسائی واضح طور پر شہری خواتین پر مرکوز ہے۔
اس سال سندھ کی سندھی خواتین تعلیم دانوں، قانون دانوں، سماجی رہنمائوں اور فنون لطیفہ سے وابستہ خواتین نے سندھ ناری ڈے منانے کا اعلان کیا ہے۔
سندھی زبان میں میں ناری کا ترجمہ عورت ہے، سندھی خواتین کی پدرانہ نظام، سماجی انصاف، وراثتی حقوق، اور مارشل لا کے خلاف جدوجہد کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔
ایک ایسے منظر نامے میں جہاں پاکستان جینڈر گیپ انڈیکس 2023 کے مطابق 146 ممالک میں 142 ویں نمبر پر ہے، سندھ ناری ڈے کو پاکستان میں خواتین کے حقوق پر گفتگو میں ایک خوش آئندہ قدم اور شراکت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
ہمیں ایسی مزید آوازوں کی ضرورت ہے جو ان خواتین کی وکالت کریں جن کی نمائندگی اور حقوق عوامی مطالبات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
سندھ ناری ڈے جیسے اقدام سندھی خواتین کی حالت زار کو پالیسی سازوں، مقننہ اور پارلیمنٹیرین کی توجہ دلائے میں کامیاب جائیں گے۔
سندھ کی خواتین کی مجموعی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، سندھ میں خواتین کی حیثیت کی ایک سرسری جھلک اس بات کا اندازہ فراہم کرے گی کہ سب سے پہلے سندھ ناری ڈے کی ضرورت کیوں ہے؟
پاکستان میں خواتین ملک کی آبادی کا تقریباً 49 فیصد حصہ ہیں اور خواتین کی لیبر فورس میں شرکت تقریباً 25 فیصد ہے۔ سندھ میں 25 فیصد خواتین کی مزدوری میں سے 86 فیصد مردوں کے مقابلے میں یہ 18 فیصد بنی ہوئی ہے۔ صنفی تفاوت صرف خواتین کے حقوق سے متعلق نہیں ہے۔ اس سے ملک کو طویل مدت میں بھی فائدہ ہوتا ہے۔
سال 2018 میں میک کینسی اینڈ کمپنی کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ علاقائی سطح پر پاکستان میں صنفی مساوات کو بہتر بنانے سے جی ڈی پی میں 30 بلین ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
عام خیال کے برعکس، دیہی علاقوں کے مقابلے شہری علاقوں میں خواتین کی شرکت کم ہے، جہاں بلا معاوضہ خواتین کارکنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ رسمی ملازمت میں سندھی خواتین کی مجموعی طور پر شرکت کم ہے۔ تاہم دیہی سندھ میں خواتین زراعت، کھیتی باڑی، مویشیوں کا انتظام، ماہی گیری، دستکاری، ثقافتی کاروبار وغیرہ میں سرگرمی سے کام کرتی ہیں۔
ایک دہائی طویل مسلسل جدوجہد اور مزدوروں کے حقوق کے کارکنوں کی وکالت کے بعد سندھ اسمبلی نے 2018 میں سندھ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ منظور کیا اور سندھ ویمن ایگریکلچرل ورکرز ایکٹ 2019 بھی منظور کیا جو کہ گھر پر کام کرنے والے کارکنوں اور زراعت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے لیے تحفظ اور فیصلہ سازی میں شرکت کا وعدہ کرتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دیہی سندھی خواتین تنخواہ کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہیں، ہر حال میں ان کا استحصال ان کا مقدر بن چکا ہے اور حکومت بھی ان کے تحفظ کے لیے کوئی کام کرتی نہیں دکھائی دیتی، ایسےمیں سندھ کی متحرک خواتین کارکنان ہی عورتوں کی واحد امید ہیں جو سندھی عورتوں کو اپنا حق دلوا سکتی ہیں۔
سندھ میں شہری سمیت دیہی خواتین کی زندگی بہتر بنانے، انہیں مردوں کی طرح یکساں مواقع فراہم کرنے، انہیں بطور انسان سمجھنے اور ان کا استحصال روکنے میں عورت مارچ کی طرح سندھ ناری ڈے بھی اہم کردار ادا کرے گا اور اس دن کو منانے سے مردوں میں آہستہ آہستہ شعور آئے گا کہ ان کی ہم جنس عورتیں بھی ان جتنی ہی حقدار ہیں۔