پروفیسر نوتن لال بے قصور قرار، جیل سے رہا کرنے کا حکم
سندھ ہائی کورٹ نے توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں 2019 سے قید ضلع گھوٹکی کے ہندو تعلیم دان پروفیسر نوتن لال کو بے قصور قرار دیتے ہوئے انہیں جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ سکھر نے یکم مارچ 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے پروفیسر نوتن لال کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
پروفیسر نوتن لال نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنی سزا کا العدم قرار دینے سے متعلق درخواست دے رکھی تھی۔
عدالت نے نوتن لال کی درخواست پر پہلی سماعت دسمبر 2023 میں کی، جس کے بعد دو سماعتیں جنوری 2024 میں ہوئی اور چوتھی سماعت میں یکم مارچ کو عدالت نے انہیں بے قصور قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے پروفیسر کو عمر قید کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا اور مقدمہ بھی خارج کردیا۔
پروفیسر نوتن لال کو شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی میں 15 ستمبر 2019 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب کہ وہاں کے مسلمان اور مذہبی گروہ کے افراد نے سندھ پبلک اسکول پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کردی تھی جب کہ ہندوؤں کے گھروں اور مندروں پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔
شہر میں حملوں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے پولیس نے عبدالعزیز خان راجپوت نامی شخص کی مدعیت میں توہین رسالت کی دفعات کے مقدمہ دائر کیا تھا۔
نوتن کمار پر پولیس نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) پاکستان پینل کوڈ کے آرٹیکل 295(c) کے تحت درج کی تھی ۔
مدعی نے مقدمے میں پولیس کو بتایا کہ انہیں ان کے بیٹے جو کہ نوتن لال کے سندھ پبلک اسکول میں پڑھتے تھے انہوں نے بتایا کہ ہندو استاد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شان میں گستاخی کی ہے اور بیٹے نے یہ بات انہیں دو گواہوں محمد نوید اور وقاص احمد کی موجودگی میں بتائی ۔
مذکورہ مقدمے کے بعد گھوٹکی پولیس نے پروفیوسر نوتن لال کو حراست میں لے کر ان کا کیس عدالت منتقل کردیا تھا اور سکھر کی عدالت نے 9 فروری 2022 کو انہیں عمر قید (25 برس قید) اور جرمانے کی سزا سُنائی تھی اور اب سندھ ہائی کورٹ نے انہیں بے قصور قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔