زبانی نکاح، غربت اور کزن میریجز سندھ میں چائلڈ میریج کا سب سے بڑا سبب

IMG-20240223-WA0000

سندھ کے شمالی ضلع شکارپور کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے احسن کا دعویٰ ہے کہ ان کے گائوں میں 300 کے قریب شادی شدہ جوڑے رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ سے زیادہ 15 جوڑوں کے نکاح نامے ہوں گے، باقی ان کی طرح تمام جوڑوں نے زبانی نکاح کر رکھا ہے۔

احسن کی عمر 44 سال ہے اور انہیں 5 بچے ہیں، انہوں نے بھی کم عمری میں شادی کی تھی لیکن انہیں شادی کے وقت اپنی عمر یاد نہیں۔

احسن بتاتے ہیں کہ انہیں یاد ہے کہ جب ان کی شادی کرائی گئی اس وقت تک ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا اور نہ ہی ان کی بیوی کے پاس شناختی کارڈ تھا بلکہ وہ تو ان سے چند سال کم عمر ہیں۔

اب احسن اگلے دو سال میں وہ اپنی بیٹی اور بیٹے کی شادی کروانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں لیکن انہیں احساس ہو چکا ہے کہ اگر انہوں نے بھی بچوں کی شادی ان کے شناختی کارڈ بننے سے قبل کروادی تو وہ بھی ان کی طرح معاشی اور صحت کے مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے لیکن ساتھ ہی وہ اس بات پر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں ان کے کزنز سے کروائیں گے تو اس لیے انہیں زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

زبانی نکاح کے معاملے پر بات کرتے ہوئے احسن نے بتایا کہ ان کے سمیت ان کے والد، ان کے دادا، ان کے نانا، ان کے چچائوں اور تمام رشتے داروں نے کبھی نکاح نامہ نہیں بنوایا، البتہ اب کئی نسلوں کے بعد ان کے خاندان کے دو لڑکے فوج میں بھرتی ہوئے ہیں تو انہوں نے فوج سے بیویوں کے اخراجات کی مد میں ملنے والے پیسوں کے لیے نکاح نامے بنوائے ہیں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ زبانی نکاح ہونے کی وجہ سے ان کے گائوں سمیت آس پاس کے تمام گائوں میں شادی کے وقت عمر نہیں دیکھی جاتی، بس لڑکے اور لڑکی کی 15 سال پہنچنے کے بعد ان کی شادیوں کی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں اور بہت سارے جوڑوں کے ہاں پہلا بچہ 18 سال کی عمر سے قبل ہی ہوجاتا ہے۔

احسن نے بتایا کہ ان کے گائوں میں 300 کے قریب شادی شدہ جوڑے ہیں جن میں سے زیادہ سے زیادہ 15 جوڑوں کے نکاح نامے بنے ہوئے ہوں گے کیوں کہ وہ سرکاری ملازم ہوں گے اور انہیں نکاح نامے کے دستاویزات بنوانے سے کوئی نہ کوئی فائدہ ملتا ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں احسن نے تصدیق کی کہ البتہ شادی ہوجانے کے بعد تمام شوہر اپنی بیویوں کے شناختی کارڈز اپنے نام پر بنواتے ہیں اور وہ شناختی کارڈز کو ہی اپنے نکاح نامے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

احسن جس گائوں میں رہتے ہیں، وہاں کی آبادی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جہاں نسل در نسل کاغذی نکاح نامے کے بغیر زبانی نکاح پر شادیاں اور طلاقیں ہوتی آ رہی ہیں۔

احسن کے گائوں کی طرح ان کے آس پاس میں موجود ایک درجن سے زائد گائوں میں بھی یہی روایت چلی آ رہی ہے اور شاذ و نادر ہی سرکاری ملازمت حاصل کرنے والے افراد نکاح نامے کے دستاویزات بنواتے ہیں۔

سندھ حکومت کے پاس شادی شدہ جوڑوں کا ریکارڈ کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں، البتہ نادرا کی جانب سے خاندان نمبر سے شادی شدہ جوڑوں کا اندازہ لگایا جا جا سکتا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن پرھ کائنات بتاتی ہیں کہ نہ صرف نکاح نامہ بلکہ سندھ میں بچوں کی پیدائش کا اندراج بھی درست انداز میں نہیں کروایا جاتا، جس وجہ سے شادی کے وقت والدین دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی یا بیٹے کی عمر زیادہ ہے۔

ان کے مطابق عام طور پر دیہات کے لوگ اندازوں پر تاخیر کے بعد بچوں کی پیدائش کا اندراج کرواتے آئے ہیں لیکن پچھلی ایک دہائی میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں، اب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت بچوں کے تعلیمی وظائف شروع کیے جانے سے بچوں کی پیدائش کا اندراج بہتر ہوا ہے۔

کم عمری کی شادی کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ سندھ میں چائلڈ میریج کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے لیکن شمالی سندھ کے دیہات میں زبانی نکاح کروانے، اپنے ہی خاندان میں شادی کرنا اور غربت بڑی وجوہات ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ زبانی نکاح کیے جانے کی وجہ سے والدین کو شادی کرواتے وقت کس طرح کی کوئی قانونی رکاوٹ نہیں آتی، اس لیے وہ بچوں کی 18 سال سے قبل ہی شادی کروانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

پرھ کائنات کے مطابق اسی طرح اپنے ہی خاندان میں بچوں کی شادیاں کروانے کی وجہ سے بھی چائلڈ میریج میں اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ دونوں بچوں کے والدین کو لگتا ہے کہ بچے شادی کے بعد بھی ایک ہی گھرمیں رہیں گے، اس لیے انہیں ان کی عمر اور صحت کے بجائے بروقت اپنی ذمہ داری نبھانے کی پڑی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح غربت اور تعلیم نہ ہونا بھی چائلڈ میریج کی بڑی وجہ ہیں، زیادہ تر والدین ہر وقت مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے بھی کم عمری میں ہی بچوں کی شادیاں کروادیتے ہیں کیوں کہ جب ان کے بچے چھوٹے ہوتے ہیں تب تک والدین خود کما رہے ہوتے ہیں، اس لیے اپنی کمائی سے ہی ان کی شادیاں کرواکر اپنی ذمہ داری سے آزاد ہوتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ اگر وہ وقت پر بچوں کی شادیاں نہیں کروائیں گے تو مہنگائی کی وجہ سے غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔
پرھ کائنات کے مطابق اسی طرح بعض والدین غربت سے بچنے کے لیے بیٹیوں کی شادیاں کروادیتے ہیں تاکہ بیٹی ان پر بوجھ نہ بنے اور بیٹوں کی اس لیے شادیاں کروادیتے ہیں کہ اسے دلہن ملے گی تو گھرمیں کمائی کرکے لائے گا۔

انہوں نے کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے حکومت اور انتظامیہ کے کردار کو سب سے زیادہ اہم قرار دیا اور کہا کہ حکومت ایسی اسکیمیں لائے جس سے کم عمری کی شادی کی حوصلہ شکنی ہو۔

پرھ کائنات نے تجویز دی کہ مثال کے طور پر حکومت اعلان کرے کہ 18 سال کی عمر کے بعد شادی کرنے والے لڑکے اور لڑکی کو حکومت فی کس ایک لاکھ روپے دے گی اور پھر حکومت شادی کے وقت ان کے شناختی کارڈز دیکھنے کے بعد انہیں رقم فراہم کرے تو بہت کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق دیہی سندھ میں بہت ساری شادیاں کا خرچہ تین لاکھ روپے تک جاتا ہے اور جب والدین کو شادی کے دو لاکھ حکومت دے گی تو وہ بچوں کی شادی تاخیر سے کروانے سے گریز نہیں کریں گے۔

سندھ میں ہر چوتھی لڑکی کی شادی 18 سال سے قبل ہونے کا انکشاف