سندھ میں ہر چوتھی لڑکی کی شادی 18 سال سے قبل ہونے کا انکشاف

مریم اس وقت 38 برس کی ہو چکی ہیں اور انہیں 7 بچے ہیں، ان کی بڑی بیٹی کی عمر 15 برس ہے اور ابھی سے ہی وہ ان کی شادی سے متعلق سوچنے لگی ہیں۔

مریم نے خود بھی کم عمری میں شادی کی تھی لیکن انہیں یہ یاد نہیں کہ ان کی شادی کس عمر میں کرائی گئی تھی، تاہم وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت تک ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا۔

مریم کا تعلق سندھ کے شمالی ضلع شکارپور سے ہے، جہاں بیشتر لڑکیوں اور لڑکوں کی عمر 18 سال سے قبل ہی کرادی جاتی ہے۔

شمالی سندھ کے اضلاع، شکارپور، جیکب آباد، کندھ کوٹ ایٹ کشمور، لاڑکانہ، قمبر ایٹ شہدادکوٹ، سکھر، گھوٹکی اور خیرپور میں 50 فیصد سے بھی زائد لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیاں کم عمری میں کرائی جاتی ہیں اور وہاں چائلڈ میریج کا کوئی کانسیپٹ ہی موجود نہیں۔

مریم نے بتایا کہ اگرچہ انہوں نے پسند کی شادی کی لیکن اس وقت ان کی عمر کم تھی اور ان کے ہونے والے شوہر بھی ان کی طرح کم عمر تھے لیکن والدین کی نظر میں دونوں جوان ہوچکے تھے۔

وہ مانتی ہیں کہ شادی کے ابتدائی چند سال تک دونوں میاں اور بیوی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ زندگی کو کیسے آگے بڑھائیں، شوہر اتنے کم عمر تھے کہ وہ ٹھیک طرح کمائی بھی نہیں کرسکتے تھے۔

انہوں نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لیے اصل مشکلات اس وقت ہوئیں جب شادی کے ایک سال بعد ان کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش متوقع ہوئی، کیوں کہ ان کے پاس اسے کھلانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔

وہ مانتی ہیں کہ ان کے لیے پہلی بچی کی پرورش کرنا مشکل تھا لیکن جیسے جیسے وہ اور ان کے شوہر زائد العمر ہوتے گئے، انہیں روزگار کرنے اور پیسے کمانے کا ہنر آتا گیا اور یوں اب تک وہ 7 بچوں کو جنم دے چکی ہیں اور اب وہ چند سال بعد بیٹی کی شادی کروانے کا سوچ رہی ہیں۔

بیٹی کی کم عمری میں شادی کروانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر وہ بیٹی کی شادی نہیں کروائیں گی تو ممکنہ طور پر ان کی بیٹی ذہنی مسائل کا شکار ہوجائیں گی یا پھر وہ بھی دیگر لڑکیوں کی طرح برے راستے پر چل پڑیں گی۔

انہوں نے اپنی مثال بتائی کہ شادی سے قبل وہ بھی ذہنی مسائل کا شکار ہوگئی تھیں لیکن شادی کے چند سال بعد ان کے ذہنی مسائل ٹھیک ہوگئے۔

انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کی شادی رجسٹرڈ نہیں ہوئی، انہوں نے گائوں کی درجنوں لڑکیوں کی طرح زبانی نکاح کیا اور ان کے آبائو و اجداد سے یہی سلسلہ چلتا آ رہا ہے، صدیوں سے وہاں زبانی شادیاں اور نکاح ہوتے آ رہے ہیں، کسی چیز کا کوئی ریکارڈ یا کوئی کاغذ نہیں ہوتا، البتہ اب کچھ لڑکے اور لڑکیوں نے ملازمت اور حکومت سے پیسے ملنے کے چکر میں شادیاں رجسٹرڈ کروانا شروع کی ہیں۔

مریم سندھ کی واحد خاتون نہیں ہیں، جن کی شادی ان کے شناختی کارڈ بننے سے قبل کرادی گئی، ان کی طرح صوبے کی ہر چوتھی لڑکی کو 18 سال کی عمر سے قبل بیاہ دیا جاتا ہے۔

اگرچہ سندھ میں کم عمری کی شادی کرنا جرم ہے اور اس متعلق قانون بھی موجود ہے، تاہم اس باوجود صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر کم عمری کی شادیاں جاری ہیں اور حکومتی ادارے ایسی شادیوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

سندھ بیورو آف اسٹیٹسٹکس (ایس بی او ایس) کی جانب سے قومی سروے 2018-2019 کی رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں ہر چوتھی لڑکی کی شادی 18 سال سے قبل ہوجاتی ہے، یعنی اس کی شادی بچپن میں کردی جاتی ہے، کیوں کہ سندھ چائلڈ میریج ایکٹ 2013 کے مطابق 18 سال سے کم عمر افراد کا شمار بچوں میں ہوتا ہے اور ان کی شادی کروانا قانونی طور پر جرم ہے۔

رپورٹ کے مطابق سندھ میں ہر چار میں سے ایک لڑکی یعنی مجموعی طور پر صوبے کی 25 فیصد لڑکیوں کی شادیاں 18 سال کی عمر سے قبل ہی کرادی جاتی ہیں۔

اسی طرح سندھ میں ہر بارہویں لڑکی کی شادی 15 سال کی عمر سے قبل کرادی جاتی ہے اور مجموعی طور پر 15 سال سے قبل بیاہی جانے والی لڑکیوں کی تعداد 8 فیصد بنتی ہے۔
مذکورہ اعداد و شمار صوبے کی مجموعی صورت حال پیش کرتے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق اگر حقیقی انداز میں دیکھا جائے تو سندھ کے دیہات اور چھوٹے شہروں میں کم عمری کی شادیاں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

اسی طرح غریب اور ان پڑھ گھرانوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کی کم عمری میں شادیاں کروانے کا روج بھی دگنا ہوجاتا ہے اور اس کی وجوہات صرف غربت اور غیر تعلیم یافتہ ہونا نہیں بلکہ اس میں متعدد وجوہات شامل ہیں۔

قومی سروے 2018-19 کے مطابق سندھ میں کم عمری کی سب سے زیادہ شادیاں شمالی اضلاع میں کروائی جاتی ہیں اور 33 فیصد شرح کے ساتھ سکھر ڈویژن سرفہرست ہے۔

حیران کن طور پر کم عمری کی شادیوں میں دوسرے نمبر پر 31 فیصد شرح کے ساتھ میرپورخاص ڈویژن ہے جب کہ 30 فیصد شرح کے ساتھ لاڑکانہ ڈویژن تیسرے نمبر پر ہے۔

سندھ میں کم عمری کی سب سے کم شادیاں کراچی ڈیوژن میں ہوتی ہیں، جہاں یہ 18 سال سے کم عمر لڑکیوں اور لڑکوں کی شادی کی شرح 20 فیصد ہے۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ کراچی ڈویژن میں کم عمری کی شادیاں کم ہونے کی بنیادی وجوہات تعلیم اور غربت کا کم ہونا ہے، تاہم وہاں دیگر عوامل بھی کم عمری کی شادیوں کو روکنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے رہنما اور وکیل عدنان کھتری کے مطابق کراچی ڈویژن میں پورے پاکستان کے قبائل اور کمیونٹیز کے لوگ بستے ہیں، جن کی اپنی اپنی روایات ہیں لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر کسی کی روایات تبدیل ہوئی ہیں اور وہاں عام طور پر لوگ بچوں کی شادیاں 20 سال کے بعد کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ساتھ ہی وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی میں بھی کم عمری کی شادیاں جاری ہیں لیکن وہ درست انداز میں رپورٹ نہیں ہوتیں یا کراچی جیسے بڑے شہر کے دیگر مسائل کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔

عدنان کھتری یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کراچی ڈویژن میں صوبے کے باقی علاقوں کے مقابلے کم عمری کی شادیاں کم ہوتی ہیں اور اندازا کراچی کی ہر تیسویں شادی کم عمری کی ہوگی، تاہم اس میں بھی عام طور پر لڑکا 18 سال سے زائد العمر ہوگا۔

انہوں نے ایک اور مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ عام طور پر کراچی میں ہونے والی شادیوں میں لڑکیاں کم عمر جب کہ لڑکے زائد العمر ہوتے ہیں اور ان کی عمروں میں زیادہ فرق پایا جاتا ہے جب کہ سندھ کے دیگر علاقوں میں کم عمری کی شادیاں تقریبا ہم عمر افراد میں کرائی جاتی ہیں، البتہ کبھی کبھار دیہاتوں میں ضعیف العمر افراد کے ساتھ نابالغ بچی کی شادی کروانے کی خبریں بھی آتی ہیں۔

بطور انسانی حقوق کے رہنما اور وکیل وہ مانتے ہیں کہ کم عمری کی شادیاں رکوانا انتظامیہ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں اور انہیں روکنا آسان کام نہیں، کیوں کہ عام طور پر کم عمری کی شادیاں کروانے والے افراد مذہب کی آڑ میں بچوں کو بالغ قرار دے کر ان کی شادیاں کروادیتے ہیں۔