ہدایت لوہار کے قتل کی آزادانہ تفتیش کرائی جائے، اہل خانہ کو معاوضہ و تحفظ دیا جائے، ایچ آر سی پی کا سندھ حکومت سے مطالبہ
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی کارکن ہدایت اللہ لوہار کے قتل کی شفاف اور کسی بیرونی دباؤ کے بغیر آزادانہ طور پر تفتیش یقینی بنائی جائے۔
کراچی پریس کلب میں ایچ آر سی پی کی جانب سے پیش کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ یہ قتل غالباً ہدایت اللہ کی قوم پرست سرگرمیوں سے منسلک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ تھا۔
اس موقع پر چیئرمین اسد اقبال بٹ نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ قتل کے خلاف دھرنا دینے پر حراست میں لیے گئے مظاہرین، جن میں ہدایت اللہ کے دو بیٹے بھی شامل ہیں، کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے اور انہیں پرامن اجتماع کی آزادی کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائےجس کی وجہ سے انہیں دو بار جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔
ایچ آر سی پی کا ماننا ہے کہ ہدایت اللہ لوہار کے قتل کی بظاہر کوئی اور وجہ دکھائی نہیں دیتی،۔ علاوہ ازیں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ہدایت اللہ لوہار کے اہل خانہ کی گواہیوں اور واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے باوجود ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس کی ابتدائی ہچکچاہٹ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، عدالت نے قتل کے تقریباً دو ہفتے بعد واقعے کی ایف آر درج کرنے کی ہدایت کی۔
اسد اقبال بٹ نے کہا کہ اس بات کے پیش نظر کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے کارکنوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، حکومت سندھ کو ہدایت اللہ لوہار کے خاندان کو معاوضہ اور تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قتل کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ 16 فروری 2024 کو نصیر آباد کے پرائمری اسکول کے استاد 56 سالہ ہدایت اللہ لوہار کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔
انہوں نے اپنی بیٹیوں سسئی لوہار اور سورٹھ لوہار کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، وہ سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کام کرنے والی متحرک کارکنان ہیں۔