ڈاکوؤں کے خلاف سندھ کے شمالی اضلاع میں رینجرز و پولیس آپریشن ناکام کیوں ہو رہا ہے؟

ضلع کشمور سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع سندھ کا وہ ضلع ہے ، جہاں ڈاکوووں کی ایک ریاست قائم ہے ۔

اس ضلع کے کچے کے ایریا جس میں گبلو ، درانی مہر ، کچو کیٹی ، میانی ، حاجی خان شر ، گڑھی تیغو ، ناپر کوٹ ، ڈیرا سرکی ، سمیت چھوٹے چھوٹے علاقے کے لوگ ڈاکو بن گئے ہیں۔

ڈاکووں کی ریاست میں ماہ صیام کے پہلے عشرے میں کندھ کوٹ ، کشمور اور تنگوانی ، شکارپور ، گھوٹکی سے سینکڑوں افراد اغوا ہوچکے ۔

سندھ کے تین اضلاع ڈاکووں کے قبضے میں ہیں۔ ان اضلاع میں کشمور ، شکارپور اور گھوٹکی شامل ہیں ۔چند گروہوں نے امن کو برباد کر رکھا ہے، لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ بدامنی کی سنگینت سے دو چار ہیں ۔

ہر آدمی اپنا تحفظ کرنے کے لیے اسلحہ کا استعمال کرنے پر مجبور ہوگیا ہے ۔

چند روز قبل اسکول ٹیچر استاد اللہ رکھیو نندوانی نے اسکول جاتے ہوئے بندوق ہاتھوں میں لیے ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا جسے ایک ہفتے کے اندر ڈاکووں نے سر عام قتل کردیا ۔

ماہ صیام کے پہلے عشرے میں اغوا ڈکیتی قتل کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور ایک ہی ماہ میں اغوا ہونے والوں کی تعداد 20 سے تجاوز کر گئی ۔

اغوا اکثر شادی کے جھانسے میں کیا جانے لگا

اغوا ہونے والوں کی تفصیلات: بی سیکشن تھانہ کی حدود سے 1 ۔ در محمد گولو ، علی بھار سھریانی ، شمن علی سھریانی ، ذیشان سھریانی ، صدر الدین میرانی ، خالد علی میرانی ، پی ایس غوثپور سے جاوید شیخ ، محمد رافع سمیجو ، گل محمد گولو ، منور علی چنو، مجید ٹانوری ، پی ایس تنگوانی کی حدود سے عباس جعفری ، پی ایس میانی سے شیر محمد بھٹو ، پی ایس کشمور سے علی داد کلوڑ ، پی ایس کرم پور سے عبید اللہ سمیجو ، علی شیر سیخ ، سھراب شیخ ، میر خان شیخ ، پی ایس بخشاپور سے محمد ظھیر عرف ننڈو جکھرانی ، پی ایس ای سیکشن سے شاھ محمد چاچڑ شامل ہیں ۔

ان مغویوں میں محمد رافع سمیجو سے ڈاکوو نے ایک کروڑ تاوان طلب کیا نہ ملنے کی صورت میں 07 مارچ کے صبح جنگن تھانہ کی حدود بے دردی سے قتل کرکے لاش پھینک دی ، دوسرا واقعہ شبیر آباد تھانہ کی حدود استاد اللہ رکھیو سے موٹر سائیکل چھیننے کی واردات کے دوراں استاد کو بے دردی سے قتل کردیا۔

پولیس اور رینجرز آپریشن ناکام

گزشتہ دو ماہ سے کچے کے علاقوں میں پولیس اور رینجرز کا آپریشن ڈاکووں کا بال بیکا تک نہ کرسکا ۔

ڈاکوو کچے سے پکے میں آکر لوگوں کو اغوا لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

مذکورہ مغویوں کے ورثاء غم سے نڈہال ہیں ۔

پولیس نے ان مغویوں میں سے خالد میرانی ، صدر الدین میرانی اور منور علی چنو کو بازیاب کراسکی ہے ۔

استاد اللہ رکھیو کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے شبیر آباد کے علاقے میں چھٹے روز بھی آپریشن میں قاتلوں کی گرفتاری ممکن نہ ہوسکی ہے۔ 40 سے زائد مشتنہ افراد گرفتار کرسکی ہے 

ایس ایس پی بشیر احمد بروہی کے ترجمان کے مطابق رواں ماہ 26 پولیس آپریشن ہوئے، جن میں 2 ڈاکو ہلاک 12 زخمی ہوئے جب کہ پولیس نے 39 افراد کو بازیاب کرانے کا دعوی کیا ہے ۔

گزشتہ ایک سال میں پانچ پولیس اہلکار تین اسکول ٹیچر سمیت 10 افراد کو ڈاکووں نے تاوان نہ ملنے کی صورت میں قتل کردیا۔

قتل ہونے والوں میں ، ہیڈ محرر مقصود احمد بنگوار ، ہیڈ محرر حاندل ڈومکی ، اہلکار صابر علی ، ہیڈ کانسٹیبل ادب علی جکھرانی ، اہلکار روشن الدین ، استاد جمن جکھرانی ، استاد مراد علی بنگوار ، استاد اللہ رکھیو نندوانی ، محمد رافع سمیجو اور حاجی محمد پناہ شامل ہیں ۔

کندھ کوٹ کے شہری سڑکوں پر نکل آئے ۔

ایڈوکیٹ عبدالغنی بجارانی کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایسی بدامنی کی لہر چل پڑی ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ پولیس مکمل ناکام ہوچکی ہے ۔

ڈسٹرکٹ بار کے ضلع صدر ایڈوکیٹ محسن پٹھان کہتے ہیں ۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ساقب علی یہاں دورہ کرنے پہنچے تھے ، بدامنی کا سن کر ایس ایس پی سے برہمی کا اظہار کیا ، اس کے بعد چیف جسٹس سندھ نے آئی سے نوٹس لینے کا کہا میٹنگ بھی ہوئی ڈسٹرکٹ بار نے اہم کردار ادا کیا ہمارے ضلع کشمور میں سب سے اہم مسئلہ بدامنی کا خاتمہ ہے ۔ اب لوگ مہنگائی بے روزگارہ بھول گئے اپنے بچوں کا تحفظ چاھتے ہیں ۔ ریاست اپنی رٹ کمزور کرچکی ہے ڈاکوو طاقت ور بن گئے قانون کے مطابق سزا اور جزا پر عملدرآمد ہو تو پھر قابو پالیا جاسکتا ہے ۔

یہاں تو اندھیر نگری چوپٹ راج ہے ۔ کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسی قتل کیا جاتا ہے ۔ پولیس سے بدامنی کنٹرول نہیں آرہی ہے ۔ اب آرمی کو آنا چاھئے تب جاکر ان ڈاکووں کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا ۔

کپڑے کی دکانوں کے صدر پالاج تلریجا کہتے ہیں کندھ کوٹ وانا وزیرستان بن گیا ہے ، عید قریب ہے مگر لوگوں میں خوشی کم خوف زیادہ دکھائی دے رہا ہے ۔ کاروبار مکمل مندی میں چل رہا ہے ماہ صیام کے پہلے عشرے میں جہاں سو فیصد خریداری ہوجاتی تھی وہاں پر 20 فیصد ہوئی ہے وجہہ صرف بدامنی ،پہلے مارکیٹ رات دس بجے کھلا ہوتا تھا مگر اب پانچ بجے شہر ویران ہوجاتا ہے ۔ سب سے بڑا مسئلا بدامنی ہے ۔

ایس ایس پی بشیر احمد بروہی نے کہا کہ ہم ڈاکووو کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں مگر لوگوں کو کیا کریں جو رانگ نمبر پر خود ڈاکووں کے پاس چلے جاتے ہیں ، ڈاکوو ڈیجٹلی طریقوں سے لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں ، مثلا فیس بوک پر سستی گاڑیوں کے اشتہارات دے کر لالچی لوگوں کو پھنساتے ہیں ۔ عشق کے چکر میں عاشق بن کر لوگ کچے پہنچ جاتے ہیں ۔ جب تک موبائیل سروسز بند نہیں کی جائیں گی تب تک ڈاکووں کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکے گا ۔

رواں ماہ مارچ کے مہینے میں مغویوں کی تعداد 22 ہے جن میں 3 مغویوں کو بازیاب کروایا جاسکا ہے جبکہ دیگر تاحال بھی ڈاکوو کے پاس ہیں ۔ سندھ حکومت کو چاھئے کہ سندھ کے تینوں اضلاع میں امن دشمنوں کا صفایا کرکے علاقوں کو امن کا گہوارہ بنایا جائے