بحریہ ٹاؤن کراچی سے جامشورو تک پھیل گیا، 25 ہزار ایکڑ زائد زمین پر قبضہ کرلیا، ڈان کی تفتیش

موقر انگریزی اخبار ڈان نے اپنی تازہ تحقیق میں ثبوتوں، سرکاری اور عدالتی دستاویزات سے ثابت کیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی سے جامشورو تک پھیل چکا اور اس نے اپنے حصے سے 25 ہزار ایکڑ زائد زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔

ڈان کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ضلع جامشورو کے دیہہ مول میں بحریہ ٹاؤن کی دیوار کئی کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے جوکہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ یہ دیوار مولے ندی کے اوپر زمین کے ٹکڑے پر ختم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتایا نہیں جارہا کہ یہ منصوبہ کہاں تک جائے گا یا یہ مزید کتنی زمین کو اپنے گھیرے میں لے گا۔ یہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس حد تک پھیلے گا جس حد تک حکمران اشرافیہ اس کی تعمیرات کو پھیلا سکتی ہے۔ یہ تعمیرات مارچ 2019ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود جاری ہیں جس میں منصوبے کے لیے 16 ہزار 896 ایکڑ اراضی کی اجازت دی گئی تھی اور بحریہ ٹاؤن کو اس زمین کی قیمت کے لیے قانونی طور پر سات سال میں اقساط کی صورت میں 460 ارب روپے کی ادائیگی کا پابند بنایا گیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے 8 نومبر 2023ء کو کیے گئے سروے پر غور کریں کہ ’بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں موجود اصل زمین اور اگر اس کی طرف سے کوئی اضافی اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے تو اسے واضح کریں‘۔ حکم کے مطابق سروے آف پاکستان نے ڈیٹا 23 نومبر کو بینچ کے سامنے پیش کیا۔ ڈیٹا کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے زیرِ قبضہ 3 ہزار 35 ایکڑ زمین میں سے 2 ہزار 222 ایکڑ جامشورو جبکہ 813 ایکڑ زمین ملیر میں ہے۔ اراضی کے واجبات ادا نہ کرنے پر بحریہ ٹاؤن نے جو دلائل پیش کیے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ 16 ہزار 896 ایکڑ کے بجائے جس رقبے کے لیے اس نے 460 ارب روپے ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اس میں سے صرف 11 ہزار 776 عشاریہ 47 ایکڑ زمین اس کے قبضے میں تھی۔

ڈان کے مطابق بورڈ آف ریونیو سندھ میں کے-فور منصوبے کے لیے 25 ہزار 600 ایکڑ میں سے 335 عشاریہ 39 ایکڑ درج ہے۔ لیکن بحریہ نے اپنے لیے مختص 16 ہزار 896 ایکڑ کے تناظر میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کی اراضی میں کے-فور کے لیے 345 اعشاریہ 75 ایکڑ زمین بنتی ہے۔ درحقیقت جی پی ایس ڈیٹا سے سامنے آتا ہے کہ 16 ہزار 896 ایکڑ زمین میں صرف کے-فور کی زمین زیادہ سے زیادہ 155 ایکڑ پر آتی ہے۔ اپنے دعوے کے برعکس بحریہ ٹاؤن نے اس زمین پر تین بڑی سڑکیں بھی تعمیر کی ہیں جن میں 9 ایکڑ پر مرکزی شاہراہ جناح ایونیو کے طور پر کیا گیا اضافہ بھی شامل ہے۔

بجلی کی ہائی ٹینشن لائنز کے لیے مختص کیے گئے علاقے پر بھی تنازعات سامنے آرہے ہیں۔ بورڈ آف ریونیو سندھ کے نقشے میں ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اراضی 38.3 ایکڑ بنتی ہے جبکہ بحریہ ٹاؤن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ 303 اعشاریہ 9 ایکڑ ہے۔

تفتیشی رپورٹ کے مطابق موجودہ صورت حال کی بات کی جائے تو ایک گاؤں حاجی علی محمد گبول گوٹھ جو بحریہ ٹاؤن کراچی کے 2019ء کے سائٹ منصوبے میں شامل تھا، وہ 58 ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا اور اسے بھی بحریہ ٹاؤن کی زمین میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ایک اور دیہات علی داد گوٹھ جو سائٹ نقشے میں موجود نہیں تھا لیکن اسے بھی گھیر لیا گیا ہے۔ یہ دونوں گوٹھ مل کر 103 ایکڑ اراضی کا اضافہ کرتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن اس رقبے کے لیے 130 ایکڑ سے زائد کا دعویٰ کررہا ہے اور اس نے ان گوٹھوں کو تعمیرات کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن 2 ہزار 236 ایکڑ کی سڑکیں جو اس کی ملکیت میں ہیں، اپنی زمین میں شمار نہیں کررہا۔ ایک اسکیم میں تعمیر کی جانے والی سڑکیں، سہولیات اور انفرااسٹرکچر لازم و ملزوم ہیں اور ان کی تعمیر ڈیولپر کی ذمہ داری ہوتی ہے (جیسا کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے سینیئر حکام اور مقامی حکومت کے حکام نے تصدیق کی ہے، بحریہ ٹاؤن کراچی کے معاملے میں ایم ڈی اے نے منصوبے کے اندر بڑی سڑکیں اور پُل اپنی لاگت سے تعمیر کی تھیں۔