سندھ سے مفرور ملزمان کی تعداد 45 ہزار ہوگئی، تعداد میں کشمور و شکارپور سرفہرست

سندھ میں مختلف جرائم میں ملوث مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تعداد 45 ہزار سے تجاوز کر گئی،اتنی بڑی تعداد میں مفرور و اشتہاری ملزمان کی عدم گرفتاری نے پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کر دیے۔

سندھ پولیس کے پولیس اسٹیشن ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم کے مطابق سندھ بھر کے تھانوں میں مختلف جرائم میں ملوث مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تعداد 45 ہزار 430 ہو گئی۔

ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ تعداد کراچی میں ہے جن کی تعداد 18 ہزار 535 ہے۔حیدرآباد رینج میں 7 ہزار 525،میر پور خاص رینج میں 394،شہید بے نظیر آباد رینج میں 1112،سکھر رینج میں 5227،لاڑکانہ رینج میں 12ہزار 560، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) آپریشن میں 50جبکہ اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ(ایس آئی یو )میں درج مقدمات میں سے 27 ملزمان مفرور اور اشتہاری ہیں۔

ضلعی سطح پر مفرور ملزمان کی فہرست میں شمالی اضلاع کشمور و شکارپور سب سے آگے ہیں، جہان ترتیب وار ساڑھے چار ہزار اور چار ہزار سے زائد ملزمان فرار ہیں۔

ریکارڈ کے مطابق کراچی کے ضلع ملیر میں مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تعداد 1929ہے، ضلع کورنگی میں 2801،ضلع ویسٹ میں 3269، ضلع ساؤتھ میں 1143، ضلع سینٹرل میں 2964،ضلع ایسٹ میں 1068،ضلع سٹی میں 2922 اور ضلع کیماڑی میں مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تعداد 2439 ہے۔

ریکارڈ کے مطابق ضلع دادو میں 2652، ضلع حیدرآباد میں 2532، ضلع کشمور میں 4991، ضلع جیکب آباد میں 1607، ضلع جامشورو میں 823، ضلع شکار پور میں 4062، ضلع ٹنڈو محمد خان میں 108، ضلع قمبر میں 690 ملزمان فرار ہیں۔

اسی طرح ضلع لاڑکانہ میں 1210، ضلع ٹھٹھہ میں 307،ضلع نوشہرو فیروز میں 766، ضلع خیر پور میں 3188، ضلع گھوٹکی میں 875، ضلع مٹیاری میں 523، ضلع ٹنڈو الہ یار میں 151، ضلع شہید بے نظیر آباد میں 90، ضلع سجاول میں 173، ضلع بدین میں 256،ضلع میر پور خاص میں 285،ضلع عمر کوٹ میں 73،ضلع مٹھی میں 36،ضلع سانگھڑ میں 256 اور ضلع سکھر میں مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تعداد 1164ہے۔

سندھ بھر سے اتنی بڑی تعداد میں مفرور اور اشتہاری ملزمان کی عدم گرفتاری نے سندھ پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔

دوسری جانب انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے بھی پولیس افسران کو مفرور اور اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کے لیے ہدایات دی گئی ہیں لیکن ضلعی پولیس افسران اور مقامی تھانوں کی جانب سے اب تک اس معاملے میں زیادہ سنجیدگی نہیں دیکھنے میں نظر نہیں آ رہی۔