جیکب آباد کی تباہی کا ذمہ دار کون؟ منظور ہونے والے اربوں روپے کے فنڈز کہاں گئے؟

کسی بھی شہر کی خوبصورتی اور شہریوں کی سہولیات کے لئے ترقیاتی اسکیمیں منظور کی جاتی ہیں اور جگہ جگہ مضبوط اور خوبصورت سڑکوں کا جال بچھایا جاتا ہے، اسکول، کالج، سول اسپتال اور دیگر تمام سرکاری عمارتوں کو بھی خوبصورت بنایا جاتا ہے، رینوویشن کے ذریعے کھنڈرات کے مناظر پیش کرنے والی عمارتوں کو نیا کیا جاتا ہے، ترقیاتی منصوبوں کے لئے تمام اضلاع میں الگ الگ اربوں روپے منظور بھی کئے جاتے ہیں۔

جیکب آباد میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے ویسے تو پچاس ساٹھ ارب روپے پندرہ بیس سالوں میں منظور ہو چکے ہیں اور خرچ بھی ہو چکے ہیں مگر حالیہ چھ ماہ میں کروڑوں روپے بھی منظور ہو چکے ہیں۔

الیکشن کو چھ ماہ ہی گذرے ہیں، نئے مالی سال جون 2024 میں ضلع بھر میں اب تک ایک ارب سے زائد رقم ترقیاتی کاموں کی مد میں منظور کی گئی ہے، محکمہ روڈز، محکمہ بلڈنگ، محکمہ ایریگیشن، محکمہ پبلک ہیلتھ، ڈسٹرکٹ کاؤنسل اور ڈپٹی کمشنر کے ذاتی اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

ہر ایک محکمہ کروڑوں روپے کی بجٹ تو پاس کروا چکا ہے، فائلوں کے درج معلومات کے مطابق تمام پیسے خرچ بھی ہو چکے ہیں، سر زمین کی بات کی جائے تو اسی سے نوے فیصد مقامات پر کوئی خرچہ نہیں ہوا، شہر کی حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو چکی ہے۔

شہری سید مجتبیٰ شاہ کا کہنا ہے کہ اگر پیسے منظور ہوتے ہیں تو خرچ بھی کئے جائیں نا۔۔۔ ہمارے ٹیکس سے جو پیسے ہمارے لئے ہماری ترقی کے لئے منظور ہوتے ہیں وہ کرپٹ افسران اور سیاستدان ملی بھگت کرکے کھا جاتے ہیں۔۔ اور شہر کی حالت بدتر سے مزید بدتر ہوتی جارہی ہے۔

سید مجتبیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ شہر، دیہاتوں اور گلی محلوں کی حالت تو خراب ہے، تو یہ کروڑوں روپے خرچ کہاں ہوئے ہیں ؟

اسی سلسلے میں شہری ریحان سومرو کا کہنا ہے کہ شرم آنی چاہیے منتخب نمائندوں اور ان کی غلامی کرنے والے کرپٹ افسران کو، جنہوں نے کروڑوں روپے منظور ہونے کے باوجود شھر میں کوئی کام نہیں کروایا۔۔ بس فائلوں کا پیٹ بھر لیا اور اپنا پیٹ پیسے ہڑپ کرکے بھر رہے ہیں۔

ریحان سومرو کا مزید کہنا تھا کہ جو پیسے منظور ہوئے ہیں وہ تمام علاقوں میں خرچ کئے جائیں و دیگر ہم کورٹ جائیں گے اور ڈپٹی کمشنر جیکب آباد سمیت تمام محکموں کے افسران کو عدالت کے سامنے کھڑا کریں گے۔

شہریوں سے بات چیت کے بعد سر زمین پر وزٹ کرنے کے بعد عوام کی بات سو فیصد سچ ثابت ہوئی ہے، کروڑوں روپے منظور ہونے کے بعد بھی جیکب آباد شھر کی حالت نہیں بدلی نہ ہی سڑکیں، اسکول اور سرکاری عمارتوں کی حالت میں کوئی بدلاؤ آیا ہے، پاکستان جیسے ملک میں کیسے ہو سکتا ہے جہاں اینٹی کرپشن، نیب، عدلیہ، میڈیا اور قانون نافظ کرنے والے ادارے بھی موجود ہوں وہاں پیسے منظور ہونے کے باوجود سر زمین پر کام ایک روپے کا بھی نہیں ہوا ہو۔

گزشتہ نئی مالی سال جون 2024 میں ضلع جیکب آباد کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے 39 کروڑ 51 لاکھ روپے سے زائد فنڈز جاری کئے گئے ہیں، جن میں سے اب تک 24 کروڑ 31 لاکھ 46 ہزار خرچ ہو چکے ہیں،
ہائی وے کے منصوبوں پر 2 کروڑ 43 لاکھ 80 ہزار اور محکمہ بلڈنگس کے منصوبوں پر 21 کروڑ 87 لاکھ 66 ہزار خرچ دکھایا گیا ہے، جبکہ شہر میں کہیں بھی ترقیاتی کام ہوتے نظر نہیں آ رہا ہے۔

رابطہ کرنے پر میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر جیکب آباد ظہور احمد مری کا کہنا تھا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے سال 2024/25 کے 78 منصوبوں پر کام جاری ہے، اس سال تمام منصوبے مکمل کئے جائیں گے، جس کے لئے مزید دو ارب جاری ہونے والے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بلوں کی ایڈوانس ادائیگی کرنے کی وجہ سے ایک انجینیئر کاشف سدھایو اپنے عہدے سے معطل ہو چکا ہے، کام ہونے سے پہلے پیسے نکالنے پر دیگر کے خلاف بھی کاروائی ہو سکتی ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ میں خود جاکر منصوبے چیک کر رہا ہوں، فنڈز مینے ڈویژن کو جاری کئے ہیں منصوبوں کی تفصیلات ان سے حاصل کریں میرے پاس تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

ڈسٹرکٹ کاؤنسل کے چیئرمین طاہر کھوسو نے بھی ترقی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دئے ہیں، طاھر کھوسو کا کہنا ہے کہ ابتک ترقیاتی منصوبوں پر چار کروڑ خرچ کر چکا ہوں، شہری علاقے میرے دائره اختیار میں نہیں دیہی علاقوں کا زمہ دار ہوں، جو کام ہوا ہے وہ ظاہر ہے، ضلع بھر کی 44 یونین کاؤنسل ہیں جہاں بہت سارا کام ہوا ہے، اور اب بھی بہت ساری یونین کونسلوں میں کام جاری ہے۔

جیکب آباد میں محکمہ پبلک ہیلتھ کو 10 کروڑ 97 لاکھ روپے جاری ہو چکے ہیں اور اب تک 44 لاکھ 92 ہزار سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے، یہ رقم فوری طور پر خرچ کرنے کے لئے محکمہ تیاری میں ہے، رابطہ کرنے پر انجنیئر پبلک ہیلتھ کا کہنا تھا کہ ابھی پیسے منظور ہوئے ہیں، جو ضروری ہوگا وہاں کام کیا جائے گا، جیسے ہی ایک کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوگی پریس رلیز جاری کریں گے اور ہر بار تمام اخراجات ظاہر کریں گے۔

محکمہ ایریگیشن میں بھی کئی سالوں سے کرپشن کی باتیں چلتی رہتی ہے، یہ بھی کسی احتساب سے ڈرنے والے نہیں ہیں، کیوں کہ کبھی بھی نیب یا اینٹی کرپشن نے ان کا احتساب نہیں کیا ہے۔

اگست 2024 میں محکمہ ایریگیشن کی جانب سے چالیس کروڑ چھ لاکھ 36 ہزار روپے خرچہ ظاہر کر لیا ہے، یہ پہلی بار نہیں ہے پہلے بھی کئی بار اربوں روپے کے فنڈز ایریگیشن محکمے کو سالانہ وصول ہوتے رہے ہیں۔

سینیئر صحافی مظھر عباس شاہ کا کہنا ہے کہ جیکب آباد کی ایریگیشن آفیس کا نظام ایک ایس ڈی او مختیار شیخ چلا رہا ہے، وہاں درجن سے زائد انجنیئر ( ایکس سی این) آتے ہیں اور چلے بھی جاتے ہیں، مگر ایک ایس ڈی او ہے جو پندرہ بیس سالوں سے یہاں تعینات ہے، جتنے فنڈز آتے ہیں تمام فنڈز کو خرچ کرنے اور اوپر سے لیکر نیچے تک تمام افسران اور سیاستدانوں کو راضی رکھنے کا کام بھی ایس ڈی او مختیار شیخ کا ہے۔

سینیئر صحافی نے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ سے ایس ڈی او کو تبدیل کرکے کروڑوں روپے فنڈز جاری ہونے کی انکوائری کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

جیکب آباد کے محکمہ روڈز کا ٹینڈر کلارک جیکب آباد کے موجودہ ایم این اے پیپلز پارٹی کے اعجاز جکھرانی کے سالے ہیں، جو دس سال سے زیادہ عرصے سے ایک ہی جگہ پر ٹینڈر کلارک ہے۔ اس کے علاؤہ بھی جتنے بھی افسران اور ٹینڈرز کلارک لگتے ہیں وہ بھی اعجاز جکھرانی کے کہنے پر لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی بھی ان کے کہنے پر لگتے ہیں۔

محکمہ روڈز کے ٹینڈر کلارک شاھین پٹھان نے رابطہ کرنے پر کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

شہری امتیاز سومرو کا کہنا تھا کہ ایک ٹینڈر کلارک بارہ سال سے ایک ہی جگہ پر تعینات ہے، ایک ٹینڈر کلارک ایک ہی جگہ پر بارہ تیرہ سال سے تعینات ہو اور وہ ہو بھی موجودہ ایم این اے کا سالا، تو کیا یہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ؟ امتیاز سومرو کا مزید کہنا تھا کہ کیا اینٹی کرپشن اور نیب کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا ہے ؟

ڈپٹی کمشنر، محکمہ بلڈنگ، ورکس اینڈ سروسز اور محکمہ روڈز سمیت ضلع کاؤنسل کے چیئرمین نے بھی دعوا کیا ہے کہ ہر جگہ کروڑوں روپے خرچ کئے ہیں مگر بار بار عوام کی چیخ و پکار اور واضع کئے گئے علاقوں کی تصویروں سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ کام ایک روپے کا بھی نہیں ہوا ہے، اکثر دیگر شہروں میں یوں ہوتا ہے کہ پچاس سے اسی فیصد کام ہوتا ہے بقایا ٹھیکیدار یا سیاستدان فنڈز ہڑپ کر دیتے ہیں مگر یہاں تو ہر جگہ پر مکمل پیسے ہڑپ کئے جاتے ہیں،

جیکب آباد کے لیے پندرہ بیس سالوں میں اربوں روپے منظور تو ہوئے ہیں مگر شہر کی حالت بہتر نہ ہونے پر سابق وفاقی وزیر محمد میاں سومرو کی ہمشیرہ ملیحہ سومرو کی جانب سے اربوں روپے کی کرپشن کا کیس پیپلز پارٹی کے موجودہ ایم این اے اعجاز حسین جکھرانی کے خلاف نیب میں درخواست دی تھی، جس پر اعجاز جکھرانی کے خلاف کئی بار گھیرا تنگ بھی ہوا ہے، نیب عدالت میں اربوں کے مقدمات چل رہے تھے جو حکومت کی تبدیلی نے قانون تبدیل کرکے رحم نازل کردیا،

نیب سندھ نے ایک بار کراچی میں اعجاز جکھرانی کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا تھا اور ایک بار جیکب آباد میں اعجاز جکھرانی کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا تھا مگر اعجاز جکھرانی ہاتھ آتے آتے نکل گئے، پھر اعجازِ جکھرانی کے رشتہ داروں اور کچھ پارٹی کے لوگوں نے اعجاز جکھرانی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا، گھر کے اندر میں کی ٹیم موجود تھی، نیب ٹیم نے پولیس کو اطلاع دی مگر پولیس نے اپنی بے بسی ظاہر کی، آئی جی سندھ کو اطلاع ملی تو پولیس کو حکم ملا کہ تحفظ فراہم کیا جائے، پھر پولیس کی مدد سے جیسے ہی نیب ٹیم اعجاز جکھرانی کے گھر سے باہر نکلی اعجاز کے لوگوں نے نیب ٹیم پر حملہ کردیا، نیب ٹیم کو نقصان تو نہ ہوا مگر مظاہرین نے گاڑی کا گھیراؤ کیا بہت زیادہ نارے بازی کی گئی۔

نیب حملے کے بعد نیب نے کبھی بھی دوبارہ جیکب آباد کا رخ نہیں کیا، نہ ہی کبھی اینٹی کرپشن نے کبھی کوئی بڑی کارروائی ظاہر کی ہے۔

چھوٹے موٹے افسران کو تو اینٹی کرپشن نے گرفتار بھی کیا تھا اور کئی بار ان پر مقدمات بھی ہوئے مگر محمکہ روڈز، بلڈنگ، ورکس اینڈ سروسز اور ایریگیشن سمیت ایسے محکمے جہاں ضلع چلانے والوں کا ہاتھ ہے وہاں کبھی بھی بیس پچیس سالوں میں اینٹی کرپشن نے کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔