میرپورخاص میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں قتل کا معاملہ، ڈی آئی، ایس ایس پی و دیگر افسران معطل
وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے میرپورخاص میں مبینہ توہین رسالت کے الزام میں ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کو قتل کیے جانے کے بعد ایکشن لیتے ہوئے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) میرپورخاص اور سینیئر سپرنٹینڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کو معطل کر دیا۔
چیف سیکریٹری نے ڈی آئی جی اور ایس ایس پی میرپورخاص کی معطلی کا نوٹی فکیشن جاری کردیا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق دونوں پولیس افسران پر الزامات کی فہرست بعد میں جاری کی جائے گی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ڈی آئی جی جاوید جسکانی اور ایس ایس پی اسد چوہدری سی پی او رپورٹ کریں گے۔
علاوہ ازیں ایس ایچ او سندھڑی نیاز کھوسو، اہلکار سی آئی اے ہدایت اللہ، ہیڈ کانسٹیبل لکھمیر، کانسٹیبل الہ جڑیو، کانسٹیبل محمد صدیق، سی آئی اے سینٹر کے کانسٹیبل نادر پرویز، کانسٹیبل غلام قادر اور فرمان علی کو بھی معطل کردیا گیا۔
وزیرِاعلیٰ سندھ کے ترجمان کے مطابق مجاز اتھارٹی سے اجازت لیے بغیر متعلقہ اہلکار ہیڈ کوارٹر نہیں چھوڑ سکتے۔
دوسری جانب وزیرِ داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے کہا ہے کہ ایس ایس پی سی آئی اے اور متعلقہ ایس ایچ او کو پہلے ہی معطل کر دیا تھا، حکومتِ سندھ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔
ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کو پولیس نے سندھڑی تھانے کی حدود میں 19 اور 20 ستمبر کی درمیانی شب مقابلے میں قتل کرنے کی تصدیق کی تھی۔
اس سے دو روز قبل ڈاکٹر شاہ نواز کے خلاف عمرکوٹ پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت مبینہ طور پر مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد فیس بک پر ’گستاخانہ مواد‘ پوسٹ کرنے پر مقدمہ درج کیا تھا۔
بعد ازاں پولیس نے لاش کو اہل خانہ کے حوالے کیا تھا، جو اسے تدفین کے لیے آبائی گاؤں جنہیرو لے گئے، تاہم وہاں لاش چھیننے کے لیے ایک ہجوم جمع ہوگیا اور اہل خانہ کو فرار ہونا پڑا۔
رپورٹس کے مطابق خاندان بھاگ کر نبیسر تھر چلا گیا، جہاں ان کا تعاقب کیا گیا اور لوگوں نے انہیں مقتول ملزم کو دفن کرنے سے روکا اور گاڑی میں چھپائی گئی لاش کے لے کر جنہیرو واپس لے آئے اور لاش کو چھیننے کے بعد اسے آگ لگا کر جلا دیا۔
مقتول نے پسماندگان میں تین بیٹے، ایک بیٹی اور بیوہ چھوڑی ہے۔