حکومت سندھ نے قمبر شہدادکوٹ میں موجود تاریخی کتے کی قبر کو محفوظ ورثہ قرار دیدیا
محکمہ ثقافت سندھ نے سندھ کے شمالی ضلع قمبر و شہدادکوٹ میں واقع کُتے کی قبر کو محفوظ ورثہ قرار دینے کی منظوری دے دی۔
چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ کی زیر صدارت محکمہ ثقافت کی ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیکریٹری ثقافت ایڈوائزری کمیٹی کے میمبر حمید ہارون، کلیم اللہ لاشاری اور ایس بی سی اے حکام سمیت دیگر شریک ہوئے۔
اجلاس میں مختلف مقامات اور عمارتوں کی ثقافتی ورثہ قرار دینے کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں قمبر و شہداد کوٹ میں واقع کُتّے کی قبر، ضلع نوشہرو فیروز میں قدیم مختیار کار دفتر، سکھر میں قدیم سول کورٹ تعلقہ روہڑی اور کندھکوٹ میں واقع انسپکشن بنگلے (1908) کو ثقافتی ورثہ قرار دینے کی منظوری دی گئی۔
اسی طرح صوبائی دارلحکومت کراچی کے کنٹونمنٹ کوارٹرز، کراچی کی ہی پارسی انسٹیٹیوٹ کمپاؤنڈ (KPI) کالونی بشمول جانگیر کوٹھاری ہال اور کاٹراک سوئمنگ باتھ (1905) اور ملیر میں واقع سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کو بھی ثقافتی طور پر محفوظ عمارت قرار دیا گیا۔
خیال رہے کہ کُتے کی قبر سندھ کے ضلع قمبر و شہداد کوٹ اور بلوچستان کے خضدار ضلع کے درمیان واقع کھیر تھر پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، جو سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
اس مقام پر سندھ و بلوچستان کی حکومتوں میں مالکی پر کشیدگی بھی رہتی رہی ہے۔
سندھ کے نامور ادیب مرزا قلیچ بیگ نے 1885 میں اس علاقے کا سفر کیا تھا۔ اپنے سفر نامے ’ڈھیاڑو جبل کے سیر‘ میں وہ کتے کی قبر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ایک شخص سو روپے کا مقروض تھا اس نے اپنا کتا گروی رکھوایا جب اس کے پاس سو روپے ہو گئے تو وہ ادائیگی کے لیے روانہ ہوا لیکن راستے میں اس نے دیکھا کہ اس کا کتا آ رہا ہے وہ اس پر سخت ناراض ہوا۔ کتا لعن طعن سن کر وہیں مر گیا۔
کتے کا مالک قرض کی ادائیگی کے لیے جب پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ کچھ چوروں نے اس کے گھر کو لوٹ لیا تھا اس کتے کی مدد سے وہ سامان برآمد ہوا اور یہ ملکیت سو روپے سے کہیں زیادہ تھی اس لیے انھوں نے کتے کو رہا کر دیا۔ مالک کو یہ سن کر دکھ پہنچا اور اس نے واپسی اسی جگہ پر کتے کی قبر تعمیر کرائی۔
نامور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کا کہنا ہے کہ یہ قبر قدیم دور میں تعمیر کی گئی ہے جس کو دیگر کلاسیکل قبروں کی طرح پتھروں سے بنایا گیا ہے، یہ قبر ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں تک رسائی آسانی سے ہو سکتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبر کسی معتبر یا سردار کی ہے۔