سندھ رواداری مارچ کے شرکا پر پولیس کا بدترین تشدد، خواتین، فنکار و سیاسی کارکنان گرفتار

FB_IMG_1728828922469

صوبائی دارالحکومت کراچی میں سندھ رواداری مارچ اور تحریک لبیک پاکستان ( ٹی ایل پی) کے بیک وقت احتجاج کے باعث کراچی پریس کلب اور اطراف کا علاقہ میدان جنگ بن گیا جب کہ پولیس کی جانب سے سندھ رواداری مارچ کے شرکا پر بدترین تشدد بھی کیا گیا۔

پولیس نے شرکا پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر تشدد کرتے ہوئے خواتین، فنکاروں اور سیاسی کارکنان کو گرفتار کرلیا۔

سول سوسائٹی نے عمر کوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں پولیس کے ہاتھوں ڈاکٹر شاہنواز کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف کراچی پریس کلب پر احتجاج کیا گیا جبکہ تحریک لبیک پاکستان نے بھی اسی مسئلے پر پریس کلب پر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔

سندھ رواداری کا قافلہ سہ پہر کو کراچی پریس کلب پہنچا، جہان شرکا نے نعرے بازی کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا،

دوسری جانب ٹی ایل پی کے ارکان بھی آگئے، جس پر پولیس نے کسی بھی ممکنہ بڑے حادثے سے بچنے کے لیے مظاہرین کے خلاف کارروائی شروع کی۔

پولیس کی جانب سے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر شروع کی گئی کارروائی کے بعد مشتعل افراد نے پولیس موبائل کو آگ لگادی جبکہ پولیس نے 50 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔

پولیس نے سندھ رواداری مارچ میں شامل معروف گلوکار سیف سمیجو کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا، اہلکاروں نے رومیسا چانڈیو سمیت دیگر خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں حراست میں لے لیا۔

پولیس کی جانب سے مختلف خواتین، فنکاروں، لکھاریوں، انسانی حقوق کے رہنماؤں، وکلا اور سیاست دانوں کو حراست میں لیا گیا اور انہیں پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

پولیس نے احتجاج کی کال کے پیش نظر گزشتہ روز ہی شہر میں 5 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ہر قسم کے جلسے، جلوس اور احتجاجی مظاہروں پر پابندی لگادی تھی ، اتوار کی صبح ہی کراچی پریس کلب کو جانے والے تمام راستوں پر بھاری نفری تعینات کردی تھی۔

پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کے بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جنوبی اسد رضا نے کراچی پریس کلب کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پولیس نے کراچی پریس کلب کے باہر سے فریقین کے 20 افراد کو حراست میں لیا ہے، حراست میں لیے گئے افراد میں تحریک انصاف کے رہنام علی پلھ، سورٹھ تھیبو اور دیگر بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب سندھ رواداری مارچ کے شرکا اور عینی شاہدین نے میڈیا کو بتایا کہ مارچ کے شرکا کو روکنے کیلیے شارع فیصل پر ایف ٹی سی، کورنگی روڈ پر قیوم آباد اور سپر ہائی وے پر ٹول پلازا سمیت دیگر مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔

علاوہ ازیں ایم اے جناح روڈ پر کیپری سنیما کے قریب بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی جو گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو روک کر تلاشی میں مصروف تھی۔

ادھر کلفٹن تین تلوار پر ہلال احمر میڈیکل سینٹر کے قریب بھی مظاہرین سے نمٹنے کے ساز و سامان سے لیس پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔

دریں اثنا ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کراچی پولیس کے ہاتھوں سندھ رواداری مارچ کے متعدد شرکا کی گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ ”پولیس نے ایچ آر سی پی کے سربراہ اسد اقبال بٹ کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی انہیں ذرائع ابلاغ سے بات کرنے سے روک دیا“۔

کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار مظاہرین کو فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کرکے سندھ رواداری مارچ کے شرکا کو کراچی پریس کلب پر احتجاج کی اجازت دی جائے۔