دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے خلاف سندھ بھر میں مظاہرے

CREATOR: gd-jpeg v1.0 (using IJG JPEG v80), quality = 75?

دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے اور ارسا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کے خلاف سندھ بھر میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے 17 نومبر کو احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت حیدرآباد، سکھر، نوابشاہ، بدین، لاڑکانہ اور ٹنڈو محمد خان کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی مظاہرے کیے گئے۔

سندھ کے مختلف شہروں میں کیے گئے مظاہرے مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیے گئے، جس میں مرد و خواتین نے شرکت کی۔

دارالحکومت کراچی میں قومی عوامی تحریک کی سندھیانی تحریک کی جانب سے بڑے مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔

سندھیانی تحریک کی جانب سے ریگل چوک سے کراچی پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس کے بعد پریس کلب پر جلسے کا انعقاد کیا گیا۔

ریلی اور جلسے میں خواتین، بچوں، ادیبوں، دانشوروں، وکیلوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

شرکا نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر مطالبات کے حق میں نعرے درج تھے۔

کراچی پریس کلب پر جلسے سے خطاب میں عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری نے کہا کہ ’دریائے سندھ، سندھ کی بقا کا واحد ذریعہ ہے اور سندھی قوم اپنی ہزار سالہ پرانی تہذیبی و تاریخ کی علامت دریائے سندھ کے تحفظ کے لیے آخری دم تک لڑے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چولستان منصوبے کے ذریعے پنجاب کی 60 لاکھ ایکڑ زمین آباد کر کے سندھ کو بنجر بنایا جا رہا ہے۔ وفاق نے غیر آئینی طور پر ارسا ایکٹ میں ترمیم کی ہے اور ارسا کو وزیراعظم کے ماتحت کرنے کا عمل وفاق کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔

بقول وسند تھری: ’1859 سے دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے پانی پر ڈاکے ڈالے گئے ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں پر پہلا حق سندھی قوم کا ہے۔ کارپوریٹ زرعی فارمنگ منصوبوں کے ذریعے سندھ کی 13 لاکھ ایکڑ زمین چھینی جا رہی ہے۔ دریائے سندھ پر کوئی بھی ڈیم اور کینال بنانا ملک کو توڑنے کی سازش ہے۔

یاد رہے کہ گرین پاکستان انیشی ایٹو’ کے تحت چولستان کی بنجر زمین کو آباد کرنے سمیت بنجر رقبے کو آباد کرنے کے لیے دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف کچھ عرصے سے سندھ بھر میں احتجاج جاری ہے۔

اتوار 17 نومبر کو قوم پرست تنظیموں، مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے سندھ کے مختلف شہروں میں دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے منصوبے پر احتجاج کیا گیا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج کی زیرِ قیادت اس منصوبے سے سندھ اور بلوچستان سمیت سرائیکی بیلٹ کے کسان بھی پانی کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ برس حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) تشکیل دی تھی جس میں متعلقہ حکومتی اداروں کے علاوہ فوج کے سربراہ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

اسی کے تحت ‘گرین پاکستان انیشی ایٹو’ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت فوج مجموعی طور پر 48 لاکھ ایکڑ بنجر زمین حکومت سے لیز پر لے گی اور اسے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ بنجر علاقوں میں پانی پہنچانے کے لیے دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالی جائیں گی۔

گرین پاکستان انیشی ایٹو’ کے تحت اب تک آٹھ لاکھ 12 ہزار ایکڑ زمین پنجاب اور سندھ سے حاصل کی گئی ہے۔

پنجاب میں چولستان کے علاقے میں یہ زمین دی گئی ہے جب کہ سندھ کی نگراں حکومت کے دور میں صوبے میں 52 ہزار ایکڑ زمین ٹرانسفر کی گئی تھی جب کہ دو لاکھ ایکڑ کی نشان دہی کر کے رپورٹ حکومت کو بھجوا دی گئی ہے۔ ان میں ضلع دادو کے کاچھے کے علاقے، سجاول ،بدین اور حیدرآباد کی زمین بھی شامل ہے۔