مذہبی انتہا پسندی کے خلاف حیدرآباد میں سندھ رواداری مارچ کا انعقاد
سندھ میں بڑھتی مذہبی انتہا پسندی، لاقانونیت، خواتین پر تشدد، اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی اور دریائے سندھ سے مزید چھ نہریں نکالے جانے کے منصوبے کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے حیدرآباد میں سندھ رواداری مارچ کا اہتمام کیا گیا۔
رواداری مارچ نسیم نگر چوک سے شروع ہوا اور حیدرآباد پریس کلب پر دھرنے کی صورت میں ختم ہوا۔
رواداری مارچ میں سندھ بھر کے ادیبوں، دانشوروں سمیت سول سوسائٹی، قوم پرست کارکنان، وکلاء، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مارچ کے شرکا کی جانب سے پر امن دھرنا دیا گیا۔
مارچ سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سندھ امن، محبت اور بھائی چارے کی سرزمین ہے، لیکن اسے دانستہ طور پر انتہا پسندی اور جنونیت کے حوالے کر دیا گیا۔
رہنماؤں نے انہوں نء کہا کہ یہ مارچ کے شرکا ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے خون کے ساتھ انصاف چاہتے ہیں، ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے قتل میں ملوث تمام مجرموں کو فوراً گرفتار کیا جائے۔
رہنماؤں نے کہا کہ سندھ کے سخت احتجاج کے باوجود وزیر اعظم شہباز شریف کا کچھی کینال کا افتتاح انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ ملک کے حکمران اقتدار کی لالچ میں سندھ کو دیوار سے لگانا بند کریں۔ سندھ کے عوام دریائے سندھ پر 6 نئے کینال، ڈیم یا کسی بھی قسم کے کٹ کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
رواداری مارچ کے اعلان کے جواب میں ایک مذہبی تنظیم نے بھی جواباً احتجاج اور مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔
رواداری مارچ نسیم نگر چوک سے شروع ہوا تھا جبکہ مذہبی جماعت نے حیدرچوک سے پریس کلب تک مارچ اور مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔
حیدرآباد پولیس نے دونوں گروپوں کے احتجاج اور صورتحال ممکنہ طورپر خراب ہونے کے باعث حیدر چوک‘ کوہ نور چوک‘ گل سینٹر‘ نیاپل ‘ تلک چاڑھی ‘حیدرآبادپریس کلب کے اطراف شاہراہوں کو سیل کر کے خاردار تاریں نصب کروادی تھیں اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔
بعدازاں گول بلڈنگ اور اس کے اطراف کاروبار اوردکانیں بھی بند کروادی تھیں۔