سندھ حکومت کے عالمی اداروں کے اشتراک سے سیلاب متاثرین کی زندگیاں آسان کرنے والے منصوبے
ہمارے علاقے کو 2022 کے سیلاب نے تباہ کردیا اور ہمیں یہاں سے ہجرت کرناپڑی، جب ایک ماہ کے بعد واپس آئے تو سیلاب کا پانی تو اتر گیا تھا لیکن پینے کے صاف پانی کے لیے ہماری خواتین کو دو سے چار کلو میٹر دور نہر سے پانی لانا پڑتا تھا جو کہ وہ صاف نہیں تھا جس کی وجہ سے ہمارے بچوں کو مختلف بیماریاں ہونے لگیں۔ اسی طرح راستوں کی خستہ حالی کے باعث بچے اسکول جانے سے محروم ہوگئے جبکہ مریضوں کی اسپتالوں تک رسائی مشکل ہوگئی، حاملہ خواتین کا بھی برا حال ہوگیا کیونکہ بروقت اسپتال پہنچنا مشکل ہوگیا تھا۔
یہ کہنا تھا کوٹڑی کے گاؤں کارو کوھ کی ملاح برداری سے تعلق رکھنے والی سماجی کام کرنے والی خواتین ساجدہ ملاح اور مومل ملاح کا، جن کی صبع کا آغاز اپنے ارد گرد کے علاقوں کی خواتین کو مختلف طریقوں سے ٹرینٹنگ دینا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے گھر کی کفالت بھی کرسکیں۔
سال 2022 کے سیلاب نے سندھ کے مختلف شہروں اور گاؤں کو تباہ کردیا تھا، اس سے 18لاکھ سے زائد گھر تباہ ہوگئے تھے ۔745 افراد جاں بحق جب کہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے تھے
سیلاب سے 37 لاکھ 73 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی فصلیں تباھ ہوگئیں اور مال مویشی بھی مرگئے ۔ سیلاب کی تباہ کاریوں میں زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے ۔اس کومدنظر رکھتے ہوئے سندھ فلڈ ایمرجنسی بحالی پراجیکٹ محکمہ پلاننگ اینڈ ڈجویلمینٹ حکومت سندھ اور ورلڈ بنیک کے تعاون سے ایک پراجیکٹ شروع کیاگیا ہے جس میں تباہ شدہ علاقوں میں صاف پینے کاپانی، فلڈ ریزلنس روڈ اور حادثات کی صورت میں 1122 اور سیٹلائٹ اسٹیشن جیسے پراجیکٹ پرکام جاری ہے جو کہ 60 فیصد مکمل ہوگیا ہے ۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر محمداسلم لغاری نے بتایا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے ہم نے یہ شروع کیا ہے جس کے تحت جون 2024 میں ڈھائی ہزار گز کی اس جگہ پر مقامی لوگوں کے لیے پینے اور استعمال کرنے 18 ڈائےبور اور 80 سے 120 فٹ گہرائی سے پانی نکال کر ٹینک میں جمع کیاجاتاہے ۔
اسلم لغاری نے مزید بتایاکہ دونوں ٹینگ 14فٹ گہرے اور 30فٹ لمبے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے 21 واٹ کے سولر سٹسم لگائے گئے ہیں جب کہ صبع سات سے دوپہر تین بجے تک زمین سے پانی نکال کر ٹینک میں جمع کیاجاتاہے اور پھر اسے صاف کرنے بعد زیر زمین پائیپوں کے ذریعے مقامی لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر پانی دیاجاتا ہے، یہ جون 2025 سے قبل مکمل کیاجائے گا۔
اسلم لغاری نے مزید بتایا کہ اس پراجیکٹ پر تقربیا ڈھائی سو خاندان اور لگ بھگ 3 ہزارافراد مستفید ہوںگے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ہمارے پراجیکٹ سندھ کے بدین، عمرکوٹ۔شہید بینظرآباد، میرپورخااص، سانگھڑ، جیکب آباد ، قمبر شہدادکوٹ، دادو، جامشورو، نوشہرفیروز اورخیرپور میں 500 واٹرپلانٹس سے 30 لالھ لوگ فائدہ حاصل کرسکیں گے۔
ساجدہ ملاح کا کہنا ہے پینے صاف پانی ہماری زندگی بہتر ہوگئی ہے ۔کیونکہ ہماری عورت بہت سفر کر رہی تھی اور بچے مختلف بیماریوں میں متبلا تھے ۔انہوں بتایا کہ ہم ملاح برادری کے مرد دریا سے مچھلیاں پکڑتے تھے سیلاب نے سب کچھ تباہ کردیا اب ہمارے مرد شہروں میں کام کرتے ہیں اور ہم سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف سماجی کام کرتے ہیں جس میں خواتین کے لیے سلائی کڑھائی کام ہے، ہمارے گاؤں کی خواتین رلی اور کپڑے بناتی ہی جو ہم حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں فروخت کرتے ہیں یہ کام ہم نیٹ ورک کے ذریعے بھی کرتے ہیں۔
ساجدہ ملاح نے مزید بتایا کہ پانی کی کمی کی وجہ سے ہم نے کچن گارڈن کا کام شروع کیا ہے جہاں پر مختلف سیزن کی سبزیاں اگائی جاتی ہیں اور پھر وہ ہم اپنے گاؤں میں استعمال کرتے ہیں۔
ورلڈبینک کی پراجیکٹ آرگنائزر ثنا صدیقی نے بتایا کہ ایک وقت میں تین ہزار سے زائد لوگ اس اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ اس کے آس پاس کے دیہات میں بھی اگرپانی کی قلت ہو تو اسی اسکیم سے پانی لے سکتے ہیں ۔
ڈسٹرکٹ حیدرآباد میں عالمی بینک کی مدد سے ایک 1122 رسیکو ایمرجنسی بنایا گیا ہے جس کے ایمرجنسی آفیسر روشن علی میہسر نے بتایا کہ 1122 کا حیدرآباد میں قیام 2022 کے سیلاب کے بعد کیا گیا، جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی زندگیاں بر وقت بچائی جائیں۔
انہوں نے بتایاکہ 80 کے قریب اسٹاف موجود ہیں جو دوشفٹوں میں کام کرتے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ روڈ پر ایکسڈنٹ ہو یا دریا میں کوئی ڈوب جائے، سن کی ٹیم بروقت وہاں پہنچتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس چاربوٹ، ایک کرین، چار فائرٹینڈر، بیس غوطہ خور، تین ایمزین اور ایک ٹرک موجود ہے۔
ایس ٹی او وحید منگی نے کہا کہ سندھ میں 143 فلڈ ریزیلنس روڈ پر کام کیا جا رہا ہے جو تقربیا 866 کلو میٹر بنتا ہے اور یہ روڈ اپنے آس پاس کی جگہوں سے ایک سے ڈیڑھ میٹر اوپر ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے 21 لاکھ لوگ فائدہ حاصل کرسکیں گے۔
ایس ٹی او وحید منگی نے کہا کہ ٹنڈو حیدر سے ٹنڈوںقیصرںتک جانے والے روڈ 8بسے 10کلو میٹر کاروڈ ہے اور میرپورخاص کے چھوٹے بڑے گاؤں سے لنک کرے گا۔
پراجیکٹ کو آرڈنیٹرںغلام شیبر نے بتایا کہ یہ پراجیکٹ تقربیا 100 ملین ڈالر کا ہے جس میں اضافہ کیا گیا ہے۔
ایس ایف آر پی کے پراجیکٹ ڈائریکٹربغلام اصغر کناسرو نے کہا کہ یہ سڑک صرف ایک انفرااسٹرکچر نہیں بلکہ یہ ہماری کمیونٹی کے مستقبل میں سرمایہ کاری ہے، معیار اور کارکردگی کو ترجیح دے کر ہم نے ایک ایسا منصوبہ فراہم کیاںہے جوآنے والے سالوں تک ہماری کمیونٹی کوفائدہ پہنچائے گا۔
ماحولیات پرکام کرنے والی اور گرین میڈیا انیشیئٹیو کی چیرپرسن شینیہ فراز نے بتایا کہ یہ صرف مٹی اورگار کی روڈ نہیں ہے بلکہ بہت سارے گاؤں کو ہائی وے سے ملانے کا ایک پراجیکٹ ہے جس ہمارے صوبہ ترقی کرے گا اور یہاں کے لوگ خاص طور پر خواتین کو فائدہ ہوگا اور ملکی معشیت تیزی سے ترقی کی جانب گا مزن ہوگی۔
سندھ حکومت اور ورلڈب ینک کے تعاون سے جاری یہ پراجیکٹس پر کام تیزی سے ہو رہا ہے، یہ 2025 میں مکمل کیا جائے جس سے صوبے میں خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔