سندھ کے سیلاب متاثرین کو گھر کے بجائے ایک کمرہ دینا ناکافی، متاثرین تاحال بنیادی حقوق سے محروم، فیکٹ فائنڈنگ کمیشن

انسانی حقوق کے کارکنوں کی تشکیل کردہ فیکٹ فائنڈنگ مشن نے سندھ میں 2022 کے سیلاب کے بعد متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے کاموں میں سنگین خامیوں کا انکشاف کردیا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے نیٹ ورک ”ساؤتھ ایشیا فار ہیومن رائٹس“ نے سندھ میں 2022 کے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے سیلاب کے بعد متاثرہ لوگوں کے نقصانات کے ازالے اور بحالی کے عمل کی جانچ کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن تشکیل دیا تھا۔
مشن میں ماحولیاتی حقوق کے وکیل اور (SAHR) کے رکن احمد رفع عالم‘ ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد طاہر‘ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اور نیٹ ورک کے رکن فاروق طارق اور (SAP-PK) کی شہناز شیدی شامل تھیں۔
اس مشن نے سندھ کے مختلف اضلاع‘ لاڑکانہ‘ شکارپور‘ نوابشاہ اور حیدرآباد کا دورہ کیا۔
مشن کا مقصد سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیر کے عمل میں حکومتی کارکردگی اور کوتاہیوں کا جائزہ لینا اور اس سلسلے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دستاویزی رپورٹ تیار کرنا تھا۔
مشن کی ابتدائی تحقیقات میں صوبائی حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے شروع کیے گئے دنیا کے سب سے بڑے ہاؤسنگ پروجیکٹ کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک کمرے کا ماڈل گھر جو سیلاب متاثرین کو دیا جا رہا ہے‘ بنیادی سہولتوں جیسے باورچی خانہ اور واش روم سے محروم ہے‘ یہ ماڈل گھر قابل قبول نہیں۔
ماہرین کے مطابق ایک کمرے کے گھر کی تعمیر کے لیے ابتدائی طور پر 3 لاکھ روپے کی رقم بھی ناکافی تھی اور موجودہ بے روزگاری اور لوگوں کی آمدنی کے پیش نظر یہ رقم بہت کم ہے۔
مشن نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ متاثرہ افراد کو ان کے نقصانات کے ازالے اور بنیادی حقوق جیسے صاف پانی‘ خوراک‘ بجلی‘ تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
مشن کے مطابق ایک کمرے کے یہ گھر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو برداشت کرنے کے قابل نہیں اور ان کمزور آبادیوں پر مستقبل میں مزید شدید قدرتی آفات کے اثرات ہونے کے امکانات ہیں۔