سندھ اور جی ایم سید – ایک ہی سکے کے دو رخ

برصغیر کے عظیم سیاست دان، مفکر، دانشور اور جدید سندھی قومپرست سیاست کی بنیاد رکھنے والے غلام مرتضیٰ العمروف جی ایم سید کو سندھ کو الوداع کہے ہوئے کئی سال گزر چکے لیکن آج بھی وہ نئی نسل میں اتنے مقبول ہیں کہ ان کے سیاسی طالب علم کہلانے والے سیاست دان بھی اتنے مقبول نہیں۔
آپ 17 جنوری 1904کو ضلع دادو کے گاؤن سن میں پیدا ہوئے۔ جی ایم سید کو ان کے وسیع علم کی بناء پر ایک بڑے دانشور کی حیثیت حاصل ہوئی تھی۔
سترہ جنوری انیس سو چار کو سن میں پیدا ہونے والے جی ایم سید جب پچیس اپریل انیس سو پچانوے کو سپردِ خاک ہوئے تو ان کے جنازے کے ساتھ قرآن، گیتا، انجیل، توریت اور شاہ جو رسالو بھی ساتھ سفر کرتے رہے تھے۔
جی ایم سید شاید پاکستان میں وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے کئی برس قبل ہی مذہبی انتہا پسندی کے ملک اور خطے میں خطرات سے متنبہ کر دیا تھا۔
جی ایم سید نے ابتدائی تعلیم سن کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ جی ایم سید کے والد کو خاندانی دشمنی کی بناء پر 1905 میں قتل کیا گیا۔
خاندان کی خواتین نے جی ایم سید کے تحفظ کی خاطر انھیں مزید تعلیم حاصل کرنے سے روکا مگر انھوں نے گھر پر اسلام ، فلسفہ، مذہب، سیاسیات اور ادب وغیرہ جیسے موضوعات پر کتابوں کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا۔
جی ایم سید کا شمار برِصغیر کے ان قومی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا، وہ 1937ء میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
جی ایم سید 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی کونسل کے نہ صرف رکن بنے بلکہ 1943ء میں مسلم لیگ کے سندھ چیپٹر کے صدر منتخب ہوئے۔
جی ایم سید نے مسلمانانِ ہند کے لیے 1940ء کی قراردادِ لاہور کی روشنی میں 3 مارچ 1943ء کو سندھ اسمبلی سے پاکستان کی حمایت میں قرارداد منظور کرائی۔
جی ایم سید ادب سے لے کر سیاست، مذہب، ثقافت، محبت سمیت مختلف موضوعات پر 50 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔وہ بذاتِ خود ایک صوفیانہ شخصیت کے مالک تھے جو تمام مذاہب کے صوفیاء سے بے پناہ محبت اور احترام رکھتے تھے۔
بنگال میں 1920میں خلافت تحریک ہو یا پھر تحریک پاکستان جی ایم سید نے ان تحاریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
جی ایم سید بنیادی طور پر ایک صوفی تھے۔ وہ سندھ کے عظیم صوفی مخدوم بلاول کے مرید اور ایک بزرگ حیدر شاہ سنائی کے سجادہ نشین بھی تھے۔ جی ایم سید کی کم عمری میں ہی ان کے والد کو قتل کر دیا گیا تھا اگرچہ انکی تمام تعلیم گھر کی عورتوں کے پاس یا گاؤں کے مکتب میں اور خانگی طور پر مقامی ٹیچروں سے رہی تھی۔ وہ حاضر جواب، بلا کی حس مزاح کے مالک، منجھے سیاستدان اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔
ان کی کتابوں میں سے ایک جئيں ڈٹھو آہ موں (جیسا میں نے دیکھا) مذاہب عالم اور ان کی تاریخ پر کتاب ہے جو انہوں نے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں لکھی جبکہ انکی ایک اور کتاب ’سندھو دیش چھو آئيں چھا لائے (سندھو دیش کیوں اور کس لیے) انکی ممنوعہ کتابوں میں شامل ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جی ایم سید تو شاید مسلمان ہی نہ تھے جبکہ وہ اپنے گاؤں کی مسجد میں بہت عرصے تک نمازوں کی امامت کرتے اور جمعے کے خطبات بھی دیتے رہے۔
انیس سو نوے کی دہائی میں سابقہ سویت یونین ٹوٹنے کے فوری بعد اقوام متحدہ کی از سر نو تشکیل اور سرمائیدارانہ بلاک اور کمیونسٹ بلاکوں میں بٹی دنیا میں روحانی ملکوں کے بلاک قائم کرنے کی بھی بات کی تھی ان کی موت بھی طویل نظر بندی کے دوران قیدو بند کی حالت میں ہوئی۔ انکی قید و نظر بندی کے وقفہ وقفہ طویل مدتیں نیلسن مانڈیلا کی معیاد قید سے بھی زیادہ تھیں۔ یہ ”اعزاز‘‘ بھی بنظیر بھٹو کی حکومت کو جاتا ہے کہ جس نے باوجود اپیلوں کے جناح اسپتال کراچی میں بستر مرگ پر پڑے چورانوے سالہ علیل اسیر کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اسی طرح جی ایم سید جو آخری بار نوازشریف حکومت میں جنوری انیس سو بانوے میں نظربند کر دیئے گئے وہ اپریل1995ء تک تادم مرگ نظربند رہے۔