بھارت کا سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد معطل کرنے کا اعلان، سندھ کو کیا نقصان ہوگا؟

images (1)

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کے بعد سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد معطل کرنے کا اعلان کردیا۔

بھارتی حکومت نے سفارتی عملہ بھی محدود کرنے کا اعلان کیا لیکن سندھ کے عوام بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان پر پریشان دکھائی دیے۔

سندھ جو کہ پہلے ہی پانی کی کمی اور دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے وفاقی حکومت کے منصوبے کے خلاف احتجاج پذیر ہے، وہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کو معطل کرنے پر مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔

انڈیا اب سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بعد اس معاہدے پر عملدرآمد کا پابند نہیں رہا اور وہ پانی کے استعمال میں آزاد ہوگا۔

پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدہ ستمبر 1960 میں عمل میں آیا تھا۔

اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔ انڈیا کے آبی وسائل کے سابق وزیر سیف الدین سوز کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے سبھی معاہدوں میں یہ سب سے کامیاب اور با اثر معاہدہ ہے۔‘

سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔ اس کے تحت ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

انڈیا کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول انڈیا کے ہاتھ میں دیا گیا۔ انڈیا کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔