دریائی پانی کی قلت، سمندر کے بھپرنے سے بدین اور تلہار کے دیہات مٹنے لگے

IMG-20250510-WA0043

سندھو دریاہ سے جڑی دھرتی، جہاں دریاؤں کے گیت گاتا اس کی پہچان ہے، آج وہ دھرتی پیاس کی دہائی دے رہی ہے، آج سندھ تپتی زمین اور سوکھی نہروں کی تصویریں بناتا جارہا ہے۔ گذشتہ دو سالوں سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اب یہاں کے مکینوں کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

محکمہ موسمیات نے اس سال کو بھی خشک سالی کاسال بتایاہے۔ 2022 میں سیلاب نے ہمارے گاؤں گوٹھ کوتباہ کردیا ہے ۔ ہمارے لوگ خوشحال تھے ۔کھیتی باڑی کرتے، ماہی گیری کرتے اور مویشی پالتے مگریہ سارا کام پانی سے ہوتا ہے، جب پانی ہی نہیں تو لوگ کیا کریں گے، ایک لمبی سانس لیتے ہوتے شیخ کیریو بھنڈاری گاؤں کے معزز شخص علی بچایو نے یہ دکھڑا بتایا کہ زیریں سندھ کا ضلع بدین جس کی آبادی تقربیا15لاکھ، مربع 21 ہزار کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔

مرد اور خواتین کی تعداد برابر جبکہ بچوں کی تعداد زیادہ ہے، یہاں سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے، بدین کے بہت سے گاؤں جہاں پانی نہ ہونے کے برابر ہے، اس خطے کو لاڑ کے نام سے پکارا جاتا ہے، جہاں دریائے سندھ سمندر سے ملتا ہے ۔

انگریزوں کے آب پاشی نظام سے قبل جب دریائے سندھ سمیت چھوٹی بڑی ندیاں پورا سال سندھ کی مٹی کو سیراب کردیتی تھیں تو مقامی لوگ پانی اترنے کے بعد بیج چھوڑا کرتے تھے اور بمپرکراپ حاصل کرتے تھے۔

دریائے سندھ اوردیگر ندیوں کا پانی سندھ کے میدانوں کو بھی زیر آب کرنے کے بعد ڈیلٹا سے سمندر کی جانب سفر کرتا جاتاتھا، جس سے یہ علاقہ سرسبزوشاداب علاقہ سمجھا جاتا تھا۔

گذشتہ کئی سالوں سے اس خطہ میں زمینین بنجراورغیرآبادہوچکی ہیں۔کیونکہ یہاں پانی دسیتباب نہیں ہے ۔جوپانی ہے وہ اتنہائی زہریلا اور کڑوا ہے جسے کسی بھی صورت استعمال میں نہیں لایاجاسکتا ہے ۔

یہاں لال چاول، گندم اور کپاس جیسی اجناس پیدا ہوتی تھیں، کئی اقسام کے پھل اور سبزیاں اگائی جاتی تھیں، لوگ ماہی گیری کرکے مچھلیاں پکڑتے تھے مگرپانی نہ ہونے کے سبب اب یہاں ہرطرف ریت اڑ رہی ہیں ۔

بات کرتے ہیں ضلع بدین کے گاؤں شیخ کیریو بھنڈاری کی جو سمندر سے قبل آخری گاؤں ہے جس بعد کوئی آبادی نہیں، یہ علاقہ پاک بھارت بارڈر سے متصل ہے۔

اس علاقہ کی آبادی تقربیا 800 اور 50 گھرانے آباد ہیں، جب سندھو کی روانی تھی، لوگ خوشحال تھے، تو پہلے علاقہ بھی آباد اور ہریالی و آبادی تھی 2022 میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعدپانی نہ ہونے کی صورت میں یہاں سے کافی لوگ چلے گئے ۔

شیخ کیریوبھنڈاری بدین شہرسے تقربیا 40 کلو میٹرجنوب میں بحیرہ عرب کے کنارے واقع ہے۔ شیخ کیریو کا اہم شحض علی بچایو اپنے ماضی کو یاد کرکے کہتا ہے کہ ہمارا علاقہ اتنا خوشحال تھاکہ ہمارے گاؤں کے قریب ایک صوفی بزرگ شیخ کیویو بھنڈاری کا مزار واقع ہے جہاں پر ہر ماہ میلہ لگتا تھا اس میں دودھ لے کرجاتے تھے، جانوروں کے لیے اس کے بدلے گھاس دیاجاتا تھا۔

ان کا کہناہے ہم کھیتی باڑی کرتے تھے مگر دریا اور سمندر نے ملکر ہماری زراعت کو ختم کردیا ہے ۔

علی بچایو نے بتایا اب ہم سمندر کے کنارے ہی مچھلیاں پکڑتے ہیں وہ کھانے کے قابل نہیں مگر دوسرے کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

ان کاکہنا تھا یہاں موجودہ نہروں میں سال میں ایک یا دو بار پانی آتا ہے جسے لوگ بڑے بڑے گڑھوں میں تالاب کی شکل میں جمع کرکے سالوں تک اس پانی کو چھان کر کھانے اور پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں یہی پانی جانور بھی پیتے ہیں ۔

شیخ کیریو بھنڈاری گاؤں کی خواتین کافی محنتی اور جفاکش ہیں ۔

نسیمہ زوجہ گلزار نے کہاکہ اس نے پانچویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے بعد میں اس کے قربیی رشتہ دار کے ساتھ اس شادی ہوگئی ان کے چاربچے ہیں ۔

زندگی مشکل ہونے کہ باوجود بڑی خوش اخلاق سے انہوں نے بتایا کہ میراشوہر کیکڑے پکڑ کر مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے پر اس کا بھی ایک سیزن ہوتا ہےجب سیزن نہیں ہوتا تو گھر میں سلائی اور کڑھائی کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پالتی ہوں ۔

انہوں بتایا کہ ہمارے گاؤں میں اسکول ہے نہ اسپتال اورنہ ہی واش روم ہے، اس کے لیے جنگلوں میں جانا پڑتا ہے۔

نسیمہ گلزار نے بتایاصحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ایک خاتون رضیہ بچے کی پیدائش کے دوران چل بسی، کیونکہ بدین بہت دورہے ۔اسپتال جاتے ہوئے حاملہ خواتین کا براحال ہوجاتا ہے، ہمارے گاؤں میں کوئی دائی نہیں ہے جوکہ مشکل وقت میں کام آسکے۔

علی بچایو اور نسیمہ سمیت دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں کسی بھی قسم کی سہولیات موجود نہیں ہیں، شیخ کیریو گاؤں میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لاڑ ہیومینیٹرین اینڈ ڈیوپلیمنٹ پروگرام (ایل ایچ ڈی پی) کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹرز اقبال حیدر اور ڈائیریکٹر آپریشن عبدالله سے پوچھا تو انہوں نے بتایاکہ ہمارا محکمہ سندھ کے تعاون سے 1800 گاؤں میں کام کر رہاہے۔ جن میں شیخ کیریو، حاجی حجام۔علی محمد ملا، الله بچایو، روپاماڑی، صدیق میندوھرو سمیت دیگر شامل ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ ہم وسائل کے مطابق سہولیات پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ایل ایچ ڈی پی اور انڈس کنسورشیم دونوں ساتھ ملکر کام کر رہی ہیں، جب سیلاب آتا ہے تو ہم ایمرجنسی کی بنیاد پرکام کرتے ہیں ہم وائر ایڈ اور واٹر سینیٹیشن پر کام کرتے ہیں ۔

انہوں بتایا کہ ایل ایچ ڈی پی ایریا کے لحاظ سے علاقوں میں مختلف کام ہوتے ہیں گاؤں شیخ کیریو اورںاس کے آس پاس کے علاقوں میں 35ںایکڑ بنجر زمین کی بحالی کے لیے سمندر کے نیچے کی زمین مہیاکی ہے، دو پانی کے تالاب بنائے گئے جہاں یہ لوگ برسات میں پانی کو اسٹور کرتے ہیں اور کیکڑوں کی فارمنگ سمیت دیگرکام کیا ہے۔

انہوں بتا یاکہ ماتلی اورںٹنڈوبھاگوںسے گیس نکلتی ہے لیکن شیخ کیریو گاؤں گیس سے محروم ہے یہاں اس کا تصور نہیں کیا جاتا ہے، یہاں لوگ دور دراز علاقوں سے لکڑیاں لے کرآتے ہیں ۔

انڈس کنسورشیم کے سی ای اوحسین جروار کے مطابق یہ کمیونٹیز دراصل ارباب اختیار حکمرانوں کی جانب سے عوام کی رضامندی یا غور و فکر کے بغیر کیے جانے والے فیصلوں کی قمیت ادا کر رہے ہیں ان کے پانی کے حقوق کا تحفظ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے یہ انصاف، بقاء حیات اور مساوات کامعاملہ ہے۔

شیخ کیریو سمیت بدین کے لوگ صاف پانی کو ترس رہے ہیں کیونکہ پانی انسانی بقا کے کیے اتنہائی اہم ہے۔