پانی میں نمایاں کمی، سندھ بھر میں سیلاب کا خطرہ ٹل گیا

سیلاب سے ضلع دادو 70 فیصد ڈوب چکا ہے—فوٹو: ٹوئٹر

مسلسل تین ماہ جون سے اگست تک بارشیں رہنے، خیبرپختونخوا (کے پی) پنجاب اور بلوچستان سے سیلابی پانی آنے کے بعد سندھ بھر میں پیدا ہونے والی بڑے سیلاب کی صورتحال ضلع دادو، قمبر و شہدادکوٹ، جامشورو، بدین اور سجاول کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد اب معمول پر آنا شروع ہوگئی۔

صوبے بھر میں سیلاب سے سب سے زیادہ ضلع دادو کو نقصان پہنچا، جہاں 70 فیصد علاقے مکمل طور پر ڈوب گئے جب کہ قمبر و شہدادکوٹ سمیت جامشورو کے بھی 50 فیصد علاقے زیر آب آئے۔

سیلاب سے بدین، سجاول اور ٹھٹہ سمیت ارد گرد کے دیگر اضلاع کو بھی نقصان پہنچا اور وہاں بھی جھڈو سمیت دیگر چھوٹے شہروں کے کئی علاقے زیر آب آئے اور ستمبر کے وسط تک وہاں چھوٹۓ سیلاب کا خطرہ برقرار رہا

صوبے بھر میں لاکھوں لوگ تاحال دربدر ہیں—فوٹو: اے پی پی

سیلاب سے دادو، میہڑ، جوہی اور سیہون شہر کے ڈوبنے کے امکانات بھی پیدا ہوگئے تھے مگر بروقت کارروائیاں کرکے ان شہروں کو بچالیا گیا اور اب منچھر جھیل میں بھی پانی کی سطح معمول پر آنا شروع ہوگئی اور ہاں سے اضافی پانی دریا میں چھوڑے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

اگرچہ اب سندھ سے سیلاب کا خطرہ ٹل چکا ہے، تاہم صوبے کے 23 اضلاع میں تاحال بارشوں اور سیلاب کا پانی موجود ہے اور تاحال زندگی درہم برہم ہے۔

کراچی کے چھ اضلاع سمیت تھرپارکر ضلع میں بارشوں اور سیلاب سے کوئی نقصان نہیں ہوا، باقی پورے سندھ کے تمام 23 ہی اضلاع بارشوں اور سیلاب سے سخت متاثر ہوئے ہیں، تاہم ضلع دادو، قمبر و شہدادکوٹ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

بارشوں اور سیلاب سے سندھ بھر کے سوا کروڑ لوگ بے گھر ہوئے تھے، جن میں سے لاکھوں لوگ تین ہفتے گزر جانے کے باوجود تاحال بے گھر ہیں اور وہ کھلے آسمان تلے سیلابی و بارشی پانی میں مچھروں اور دیگر بیماریوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

کے این شاہ میں تاحال 8 فٹ تک پانی موجود ہے—فوٹو: ای پی اے

سندھ بھر میں تاحال صوبائی حکومت سمیت وفاقی حکومت یا عالمی اداروں نے تاحال متاثرین کی بحالی اور علاقوں سے پانی نکالنے کے لیے کوئی امدادی کارروائی نہیں کی جب کہ ابھی تک لوگوں کو رہائش کے لیے محض خیمے تک فراہم نہیں کیے گئے۔

سندھ حکومت اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر کے 70 لاکھ افراد مکمل طور پر بے گھر ہوچکے ہیں، تاہم مجموعی طور سیلاب اور بارشوں سے سوا کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔

صوبے کے ہزاروں دیہات کے دیہات بارشوں اور سیلاب میں اجڑ چکے ہیں جب کہ ایک درجن سے زائد شہروں میں تاحال 8 سے 3 فٹ تک پانی موجود ہے، جس وجہ سے وہاں کاروبار زندگی مفلوج ہے۔

جن شہروں میں 8 فٹ تک پانی موجود ہے، ان میں خیرپور ناتھن شاہ (کے این شاہ) گاجی کھاوڑ اور قبو سعید خان جیسے شہر شامل ہیں جب کہ جھڈو، میہڑ، جوہی، سیہون، خیرپور، گھوٹکی، سکھر، لاڑکانہ، نوابشاہ، نوشہروفیروز، مورو، کندھ کوٹ و کشمور، جیکب آباد اور شکارپور میں بھی تاحال برساتی موجود ہے اور تین ہفتے گزر جانے کے باوجود پانی کی نکاسی کے لیے کوئی خصوصی انتطامات نہیں اٹھائے گئے

میہڑ کے ڈوبنے کے امکانات بھی پیدا ہوگئے تھے—فوٹو: رائٹرز