سندھ میں سپر فلڈ کا خطرہ کم ہونے لگا، درمیانے درجے کے سیلاب کا خطرہ برقرار

آبپاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں حالیہ دنوں میں آنے والے سیلابی ریلے جب سندھ کی طرف بڑھیں گے تو ان کی شدت کافی حد تک کم ہو جائے گی اور سندھ میں سپر فلڈ کا خطرہ نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے دریاؤں اور ندی نالوں کی گنجائش کم ہے اور وہاں زیادہ آبادیاں موجود ہیں، اس لیے نقصان زیادہ ہوا۔ جبکہ سندھ میں نہریں گہری بہتی ہیں اور زیادہ تر علاقے کچے ہیں، جہاں پانی آسانی سے پھیل کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں "سپر فلڈ” جیسی تباہی کا خطرہ موجود نہیں۔
محکمہ آبپاشی سندھ کے ماہر عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ چناب سے آنے والا پانی ہیڈ تریموں پر پہنچتے پہنچتے آدھے سے زیادہ کم ہو گیا تھا اور اب جب یہ سندھ میں داخل ہو رہا ہے تو مزید کمزور ہو چکا ہے۔
ان کے مطابق گڈو بیراج میں پانی کی آمد تقریباً 3 لاکھ 60 ہزار کیوسک جبکہ سکھر بیراج پر 3 لاکھ کیوسک ہے، جو درمیانے درجے کے سیلاب کے زمرے میں آتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گڈو بیراج ایک وقت میں 12 لاکھ کیوسک تک پانی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور سکھر بیراج بھی 9 لاکھ 60 ہزار کیوسک تک سنبھال سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں 2010 میں سکھر بیراج سے 12 لاکھ کیوسک پانی بھی گزر چکا ہے، اس لیے موجودہ صورتحال زیادہ خطرناک نہیں۔
سکھر اور قریبی علاقوں میں اس وقت سیلابی پانی کچے کے علاقوں میں داخل ہو رہا ہے، لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پانی ان کے لیے نقصان کے بجائے فائدہ مند ہوگا کیونکہ زمین زرخیز ہو جائے گی اور آنے والی فصل بہتر ہوگی۔ البتہ کئی دیہاتیوں نے احتیاط کے طور پر اپنے خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق متاثرہ یا خطرے سے دوچار آبادیوں کو ریلیف کیمپس اور پکے گھروں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ریسکیو ٹیمیں، کشتیاں اور پولیس و رینجرز کی نفری تعینات کر دی گئی ہے جبکہ نیوی کی ایک خصوصی ٹیم بھی سکھر پہنچ چکی ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔
مجموعی طور پر سندھ میں سیلاب کی موجودہ صورتحال قابو میں ہے اور ماہرین کا ماننا ہے کہ پانی کا بہاؤ بتدریج ہونے کی وجہ سے دباؤ برداشت کیا جا سکتا ہے، اس لیے پنجاب کی طرح اچانک اور شدید نقصان دہ سیلاب یہاں متوقع نہیں۔