سندھ میں بھی سیلابی صورتحال، سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے کچے کے علاقے ڈوبنے لگے

15112501df9f319

پنجاب سے آنے والے سیلابی ریلوں نے سندھ میں سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے کچے کے علاقوں میں تباہی مچانا شروع کردی جب کہ پانی ٹھٹھہ اور سجاول تک جا پہنچا۔

گڈو اور سکھر بیراجز میں پانی کی سطح بڑھنے سے کندھ کوٹ، گھوٹکی، کشمور، اوباڑو، گمبٹ، خیرپور اور سکھر میں کچے کے سینکڑوں دیہات زیر آب آ گئے، مکانات گر گئے، مہندی، تل اور گنا سمیت کئی فصلیں تباہ ہوگئیں جبکہ مویشیوں کا چارہ بھی پانی میں بہہ گیا۔

کندھ کوٹ میں اسی سے زائد دیہات کا شہروں سے زمینی رابطہ منقطع ہے اور متاثرہ لوگ نجی کشتی مالکان کو فی فرد سات سو روپے ادا کرکے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔

گھوٹکی میں دریائے سندھ کے کٹاؤ سے قادرپور گیس فیلڈ کے کنویں متاثر ہوئے ہیں اور دس کنوؤں سے پیداوار بند کردی گئی۔

گڈو بیراج پر پانی کی آمد چھ لاکھ کیوسک سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ سکھر بیراج پر پانی کی آمد پانچ لاکھ اڑتیس ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی۔

وسطی سندھ میں بھی صورتحال سنگین ہے، نوشہرو فیروز میں دریائے سندھ کا پانی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور تین تحصیلوں کی کئی بستیاں اجڑ چکی ہیں۔

متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی جانب جا رہے ہیں۔ ضلع بھر میں ایک سو ستائیس ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں مگر اس کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔

حیدرآباد ڈویژن کے کئی زیریں علاقے بھی سیلاب کی لپیٹ میں آنا شروع ہوگئے ہیں، پانی کے دباؤ کے باعث دریائے سندھ کے کناروں پر خطرہ بڑھ رہا ہے اور ضلعی انتظامیہ کی غیر موجودگی کے باعث متاثرین کو اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی کرنا پڑ رہی ہے۔

زیریں سندھ میں ٹھٹہ اور سجاول کے متعدد علاقے زیر آب آچکے ہیں، کھیت کھلیان پانی میں ڈوب گئے ہیں اور کئی دیہات کا شہروں سے رابطہ ٹوٹ گیا۔

کوٹڑی بیراج پر بھی پانی کی سطح میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے اور دریائے سندھ میں مسلسل بلند ہوتے پانی سے خطرہ مزید بڑھ رہا ہے۔

سندھ بھر میں سیلابی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ ایک جانب متاثرین کشتیاں اور دیگر ذرائع استعمال کرکے محفوظ مقامات تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب سرکاری ریلیف کے اقدامات نہایت محدود اور ناکافی دکھائی دے رہے ہیں۔