کراچی کی تاریخی پہچان: ایمپریس مارکیٹ

کراچی کی بھاگ دوڑ بھری زندگی کے بیچوں بیچ ایک عمارت ایسی بھی ہے جو وقت کے ساتھ بوڑھی ضرور ہوئی ہے، مگر اب بھی اپنے اندر تاریخ کے کئی باب سنبھالے ہوئے ہے۔ یہ ہے ایمپریس مارکیٹ، صدر کا دل، جس کے بغیر صدر کا تصور ادھورا لگتا ہے۔
یہ صرف ایک خرید و فروخت کی جگہ نہیں بلکہ وقت کی گواہ ہے۔ اس کی اینٹوں میں نوآبادیاتی دور کی جھلک چھپی ہے اور اس کی زمین پر 1857 کی جنگ آزادی کی گونج آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بغاوت کرنے والے سپاہیوں کو سرِعام پھانسی دی گئی اور توپوں سے باندھ کر اڑا دیا گیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ آج جہاں ہم روز مرہ کی خریداری کرتے ہیں، کبھی وہیں خون کے چھینٹے گرے تھے۔
1884 میں جب اس کی بنیاد رکھی گئی تو یقیناً کسی نے نہ سوچا ہوگا کہ یہ عمارت کراچی کی پہچان بن جائے گی۔ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی یہ مارکیٹ اس وقت کے حساب سے ایک شاہکار تھی۔ 140 فٹ بلند مینار اور اس پر نصب گھڑی پورے شہر کی نبض بتاتی تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس گھڑی کی ٹک ٹک میں شہر کی سانسیں شامل تھیں۔
وقت گزرتا گیا، شہر پھیلتا گیا اور ایمپریس مارکیٹ بھی اپنی رونقوں سمیت کراچی کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بنتی گئی۔ کبھی یہ صرف خریداری کا مقام نہ تھا، لوگ یہاں دوستوں سے ملنے آتے، گپ شپ کرتے اور میل جول بڑھاتے۔ مگر تقسیم کے بعد بڑھتی آبادی اور تجاوزات نے اس کی صورت بدل دی۔ وہ خوبصورتی ماند پڑنے لگی جو کبھی اس کی پہچان تھی۔
پھر 2018 آیا، جب بڑے پیمانے پر تجاوزات ہٹا کر اسے سانس لینے کا موقع دیا گیا۔ آج یہ اپنی اصل صورت کے قریب ہے۔ اندرونی حصے میں دکانیں ہیں، جہاں روزانہ ہزاروں خریدار آتے ہیں۔ کبھی مصالحوں کی خوشبو، کبھی سبزیوں کی بہار اور کبھی میوہ جات کی چمک خریداروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
ایمپریس مارکیٹ صرف ایک عمارت نہیں۔ یہ ایک کہانی ہے—قربانی کی، غلامی کی، جدوجہد کی اور پھر ایک شہر کی پہچان بننے کی۔ اس کے صحن میں کھڑے ہو کر لگتا ہے جیسے ماضی کی سرگوشیاں اب بھی سنائی دیتی ہوں۔
کراچی کی ہلچل میں اگر کبھی لمحہ ملے تو ایمپریس مارکیٹ کے پاس ضرور رکیں۔ اینٹوں سے بنی یہ عمارت آپ سے باتیں کرے گی—شاید وہ کہانیاں سنائے جو کتابوں میں نہیں ملتیں، لیکن اس کے دل میں آج بھی محفوظ ہیں۔