سانحہ کارساز کیا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ پیپلزپارٹی کیا کرسکی؟

images (1)

تحریر: پرھ کائنات                              

آج سے 16 سال قبل 18 اکتوبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم سندھ کی بیٹی بےنظیر بھٹو آٹھ سال کی طویل خودساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد جب 18 اکتوبر کو دوپہر ایک بج کر 45 منٹ پر کراچی پہنچیں تو ان کے استقبال کے لیے ملک بھر سے آنے والے لوگوں کا اتنا بڑا جلوس تھا کہ انہیں کراچی ایئرپورٹ سے کارساز تک پہنچنے میں 10 سے زائد گھنٹے لگے۔

جب ان کا جلوس شاہراہ فیصل پر کارساز پل کے قریب پہنچا تو یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے، جن میں 180 سے زائد لوگ مارے گئے جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوئے۔ لاشوں اور زخمیوں کو کراچی کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی کراچی ائرپورٹ پر آمد کے موقع پر ان کا جس قدر والہانہ استقبال کیا گیا اس کی مثال پاکستان ہی نہیں بلکہ برصغیر اور ایشیا کی تاریخ میں بھہ نہیں ملتی، تقریبا 30 لاکھ افراد نے ان کا استقبال کیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے تاریخی استقبال کا جو ریکارڈ 10 اپریل 1986 کو ان کی لاہور آمد کے موقع پر قائم ہوا تھا، وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 18 اکتوبر 2007 کو کراچی آمد کے موقع پر خود بخود ٹوٹ گیا۔ جو شاید اب کبھی نہ ٹوٹ سکے۔ محترمہ کا طیارہ کراچی کے قائداعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترا ۔ سہ پہر پونے تین بجے محترمہ بے نظیر بھٹو خصوصی تیار کردہ ٹرک پر ایئرپورٹ لاؤنج سے باہر آئیں۔

کراچی ایئرپورٹ سے مزار قائداعظم تک اور ایئرپورٹ سے لے کر قائد آباد ‘ لانڈھی ‘ گلشن حدید تک لوگوں کا جم غفیر تھا، پورا سندھ دارالحکومت کراچی میں امنڈ آیا تھا۔ استقبالی جلوس نے ایئرپورٹ سے کار ساز پل تک کا چند کلو میٹر کا فاصلہ ساڑھے نو گھنٹے میں طے کیا جب کہ دوسری جانب مزار قائد کے ساتھ پارک اور اطراف پیپلز سیکریٹریٹ تک کئی لاکھ افراد محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر سننے کے لیے جمع تھے۔ شام کے وقت کارساز کے قریب محترمہ بے نظیر بھٹو کے ٹرک کے انتہائی نزدیک یکے بعد دیگرے دو زور دار دھماکے ہوئے۔ ہر طرف لاشیں اور انسانی اعضا بکھر گئے۔

اٹھارہ اکتوبر2007 کا سانحہ کار ساز اس وقت تک کی سب سے بڑی دہشت گردی تھی جس میں 170 افراد ہلاک ہوئے جن کی اکثریت سندھ سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔

بے نظیر بھٹو نے اگلے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ انتظامیہ انہیں سکیورٹی دینے میں ناکام ہو گئی ہے۔ انہوں نے غیرملکی ماہرین سے اس سانحے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر وزیراعظم شوکت عزیز نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔ حکومت کی جانب سے مشتبہ حملہ آور کا خاکہ بھی جاری کیا گیا مگر بعدازاں تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں۔

اس سوال کا جواب بھی معلوم نہ ہوسکا کہ جلوس کے دوران سٹریٹ لائٹس کیوں بند کر دی گئی تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے نام خط میں نہ صرف یہ کہ اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا بلکہ تین افراد کو نامزد بھی کر دیا۔

خط میں کہا گیا تھا کہ سانحہ کارساز میں وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر اعجاز شاہ ملوث ہیں۔ اس خط میں بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کو ملزم نامزد نہیں کیا تھا اور شاید اس لیے نہیں کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں یہ تحقیقات ممکن ہی نہ ہوتیں۔

یا شاید اس لیے کہ پرویز مشرف کو تو انہوں نے اپنے قتل کا ملزم نامزد کرنا تھا۔ کئی برس بیت گئے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنا پانچ سالہ اقتدار گزار کے رخصت بھی ہو گئی مگر اس سانحے کے مجرموں کا سراغ نہیں مل سکا۔ جنہیں بے نظیر بھٹو نے نامزد کیا تھا ان سے بھی پوچھ گچھ نہ ہوئی، پرویز الٰہی کی ق لیگ کو کچھ عرصہ تک کارکن قاتل لیگ کہتے رہے لیکن جب قیادت نے ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں ق لیگ سے اتحاد کر لیا تو کارکن بھی خاموش ہوگئے۔

اٹھارہ اکتوبر 2007 کے واقعات کے بعد بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کا حوصلہ کم نہیں ہوا۔ حادثہ کے کچھ دنوں بعد گڑھی خدا بخش گئیں اور والد کے مزار پر حاضری کے بعد وہاں بیٹھ کر قرآن مجید پڑھتی رہیں اور وہاں پر اعلیٰ قیادت کو کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو مجھے یہاں دفنایا جائے جہاں میں تلاوت کر رہی تھی۔ محترمہ نے جمہوریت کے لیے نہ صرف میثاق جمہوریت معاہدہ کیا بلکہ جمہوریت کی بقاء اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے درمیان رہ کر ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کا ذہن بھی بنا لیا تھا اور پھر ڈھائی ماہ بعد انہیں بھی راولپنڈی میں دہشت گردی کے واقعے میں 27 دسمبر 2007 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کرادیا گیا۔

سانحہ کارساز کے بعد حکومت سندھ نے سانحہ کارساز کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے حادثے کے مقام پر یادگار قائم کی جہاں ہر سال شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی تقریب ہوتی ہے۔

اب ہر سال 18 اکتوبر کے روز پیپلز پارٹی شہدائے کارساز کی یاد مناتی ہے اور ہزاروں پی پی پی کارکنان اور رہنما یادگارِ شہداء پہنچتے ہیں اور کارساز پر جا کر تمام شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں تاہم سانحہ کارساز کا غم پوری قوم محسوس کرتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر کے مواد سے ادارے کا متفق ہونا لازم نہی