راشد محمود سومرو  کی سندھ کے تعلیمی اداروں میں موسیقی کی تعلیم دینے کی مخالفت

فائل فوٹو: فیس بک

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) سندھ کے امیر مولانا راشد محمود سومرو نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں موسیقی کی تعلیم  کے لیے میوزک ٹیچرز کی بھرتی کےحکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنے سے گریز کیا جائے، دوسری صورت میں سخت رد عمل دیا جائے گا۔

سندھ حکومت نے رواں ماہ نومبر کے وسط میں صوبے بھر کے اسکولوں میں گریڈ 14 کے 700 سے زیادہ میوزک ٹیچر بھرتی کرنے کا اعلان کیا تھا۔

سندھ حکومت کےمطابق میوزک ٹیچرز کے لیے درخواستیں دینے والے امیدواروں کےپاس ڈپلومہ ہونے سمیت میوزک کا سرٹیفکیٹ ہونا لازمی ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے اسکولوں میں میوزک ٹیچرز کی بھرتی کے فیصلے کو عوام نے خوش آئندہ قرار دیا تھا، تاہم مولانا راشد محمود سومرو نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس فیصلے کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا۔

انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر سندھ حکومت کے فیصلے کو مسترد کیا اور صوبائی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ سرکاری اسکولوں میں میوزک ٹیچرز کو بھرتی کرنے سے گریز کرے، دوسری صورت میں سخت رد عمل دیا جائے گا۔

راشد محمود سومرو کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت عربی اور فارسی ٹیچرز بھرتی کرنے کےمیوزک ٹیچرز بھرتی کر رہی جو کہ غیر آئینی اور سندھ کی تعلیم کےخلاف ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے دھرتی ٹی وی سے بات کرتے وقت بھی واضح کیا کہ وہ کسی صورت میں سرکاری اسکولوں میں موسیقی کی تعلیم کی حمایت نہیں کریں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں موسیقی کی تعلیم کی مخالفت نہیں کرتے اور نہ ہی وہ گلوکاروں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی ٹی وی چینلز کے باہر ڈنڈے لے کر کھڑے ہوتے ہیں کہ موسیقی کیوں چلائی جا رہی ہے بلکہ وہ صرف سرکاری اسکولوں میں موسیقی کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موسیقی کسی طرح بھی تعلیم نہیں ہے، حکومت طلبہ کو سندھ کی ثقافت کی تعلیم دے، انہیں شاہ، سچل اور سامی کی تعلیم دے، طلبہ کو موہن جو دڑو کی ثقافت پڑھائی جائے، موسیقی کی تعلیم قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ چوں کہ وہ سندھ کے شہری ہیں اور پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ ملک میں کوئی بھی کام اور قانون مذہب اسلام اور قرآن و حدیث کےخلاف نہیں ہوگا، اس لیے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

راشد محمود سومرو کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں موسیقی کی تعلیم کی مخالفت کرنے پر انہیں سول سوسائٹی اور عام افراد کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، تاہم ان کی مخالفت پر تاحال صوبائی حکومت نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔