سندھ میں خطرناک ٹائیفائیڈ کے 2 لاکھ کیسز رپورٹ

فائل فوٹو: سندھ حکومت

محکمہ صحت سندھ کے مطابق صوبے بھر میں رواں برس جنوری سے اکتوبر تک خطرناک ٹائیفائیڈ کے 2 لاکھ 7 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئےہیں، جن پر ماہرین کے مطابق اینٹی بائیوٹک ادویات بھی اثر نہیں کر رہیں۔

حکومتی اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہےکہ سندھ میں بارشوں اور سیلاب کےبعد ٹائیفائیڈ میں زبردست اضافہ ہوا اور اگست سے اکتوبر تک ماہانہ 30 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے اور محض تین ماہ میں ٹائیفائیڈ کے ڈیڑھ لاکھ کےقریب کیسز سامنے آئے۔

محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری میں 14 ہزار 475 ٹائیفائیڈ کے کیسز رپورٹ ہوئے، فروری میں 16 ہزار 190، مارچ میں 17 ہزار 637، اپریل میں 16 ہزار 654 کیسز، مئی میں 18 ہزار 256 کیسز، جون میں 18 ہزار 884، جولائی میں 18 ہزار 327، اگست میں 23 ہزار 796، ستمبر میں 34 ہزار 462 اور اکتوبر میں 29 ہزار 73 کیسز رپورٹ ہوئے۔

مجموعی طور پر سال جنوری سے لے کر اکتوبر تک 2 لاکھ 7 ہزار 763 کیسز رپورٹ ہوئے۔

انگریزی اخبار ڈان میں شائع خبر کے مطابق ماہرین نے سندھ میں رپورٹ ہونے والے ٹائیفائیڈ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس پر اینی بائیوٹک بھی اثر نہیں کر رہیں۔

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر خالد شفیع نے اخبار کو بتایا کہ صوبے کے دیگر شہروں کی طرح دارالحکومت کراچی میں بیکٹریل انفیکشن کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے، جن میں 70 سے 80 فیصد بڑے پیمانے پر ڈرگ رزسٹنٹ ٹائیفائیڈ (ایکس آر ڈی) کے کیسز ہیں۔

ماہرین کے مطابق ٹائیفائیڈ کیسز کے سب سے زیادہ ہاٹ اسپاٹ علاقے میر پور خاص، سانگھڑ، جیکب آباد، لاڑکانہ، قمبر، خیرپور، شہید بے نظیر آباد، نوشہرو فیروز، دادو، حیدرآباد، جامشورو، ٹھٹہ اور کورنگی شامل ہیں۔

دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر عبدالغفور شورو جو کہ سیلاب زدہ علاقوں کا روزانہ کی بنیاد پر دورہ کرتے ہیں، انہوں نے اخبار کو بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔

انہوں نے بتایا کہ اب بھی کئی علاقوں اور سڑکوں میں پانی موجود ہے، سیلاب زدہ علاقوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن ٹائیفائیڈ کے حوالے سے ہمیں شدید تشویش ہے کیونکہ اس کا علاج بہت مشکل ہے۔