سیہون پولیس کا نورین فاطمہ کے قتل کا معمہ حل کرنے کا دعویٰ
ضلع جامشورو کی تحصیل سیہون کی پولیس نے گزشتہ ہفتے مبینہ طور پر بھائیوں کی جانب سے قتل کی جانے والی 25 سالہ پرائمری اسکول ٹیچر اور حافظ قرآن نورین فاطمہ کے قتل کا معمہ حل کرنے کا دعویٰ کردیا۔
پولیس کے مطابق نورین فاطمہ کو ان کے بھائی پولیس اہلکار محسن مہر نے فائرنگ کرکے قتل کیا، جنہوں نے دوران تفتیش اعتراف جرم کیا۔
ملزم محسن مہر نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے چچا جمن مہر کا پسٹول استعمال کیا جب کہ انہیں والد کی جانب سے بھی بہن پر سختیاں کرنے کی ہدایات ملتی رہتی تھیں۔
پولیس کے مطابق مقتولہ نورین فاطمہ کے والد ملازمت کے سلسلے میں پنجاب کے شہر فیصل آباد میں رہتے ہیں، جہاں سے وہ اپنے بیٹوں کو بہن پر سختی سے متعلق ہدایات دیتے تھے اور انہیں طیش دلاتے تھے کہ وہ تو فیصل آباد میں ہیں لیکن ان کے بیٹے کیا کر رہے ہیں؟
پولیس کے مطابق مقتولہ نورین فاطمہ کو بھائی نے 6 گولیاں ماریں جو موقع پر ہی ہلاک ہوگئیں، بعد ازاں ان کے قتل کو خودکشی قرار دینے کی کوشش کی گئی
پولیس نے مرکزی ملزم محسن مہر اور جمن مہر کو گرفتار کرلیا، جنہیں مزید ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
نورین فاطمہ کے قتل کا مقدمہ ان کے شوہر منصور سومرو کی فریاد پر 19 مئی کو بھان سید آباد تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 سمیت دیگر دفعات کے تحت مقتولہ کے بھائی اور والد سمیت دیگر دو نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے مقتولہ کے بھائی کو گرفتار کرلیا تھا، جنہوں نے دوران تفتیش اعتراف جرم کیا۔
نورین فاطمہ کو 16 مئی کو قتل کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر ان کے اہل خانہ نے اسے خودکشی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
نورین فاطمہ کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے رہنمائوں اور صحافیوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا تھا۔
نورین فاطمہ مہر نے کوٹڑی کے نوجوان کلاس فیلو منصور سومرو سے پسند کی شادی کر رکھی تھی۔
نورین فاطمہ کے قتل کے بعد منصور سومرو نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ دونوں کی ملاقات 2015 میں یونیورسٹی میں ہوئی، جس کے بعد ان کے درمیان تعلقات استوار ہوئے اور دونوں نے 2021 میں پسند کی شادی کی۔
نوجوان کے مطابق دونوں نے صرف عدالت میں نکاح کیا اور نورین فاطمہ نے والدین اور گھر والوں کو رضامند کرنے کے لیے مہلت مانگی لیکن دو سال تک وہ اہل خانہ کو رضامند نہ کر سکیں
نوجوان نے جذباتی انداز میں بتایا تھا کہ نورین فاطمہ کے اہل خانہ ان کی شادی کسی اور جگہ کروانا چاہتے تھے، جس پر گھر والوں کو علم ہوا کہ نورین فاطمہ نے پہلے ہی نکاح کر رکھا ہے تو انہوں نے ان پر خلع لینے کے لیے دباؤ ڈالا اور انکار پر انہیں قتل کرکے ان کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے رہے ہیں۔
انہوں نے روتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی اہلیہ کو قتل کیا گیا، ان کی ایف آئی آر داخل نہیں کی جا رہی، جب کہ انہیں اپنی اہلیہ کا آخری دیدار بھی نہیں کرایا گیا اور انہیں بتائے بغیر ان کی تدفین کردی گئی۔