کراچی کے تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرنے والی تین خواتین گرفتار

کراچی پولیس نے دارالحکومت کے کلفٹن اور ڈیفنس کے علاقوں میں موجود تعلیمی اداروں میں منشیات کی سپلائی فراہم کرنے والی تین خواتین سمیت 15 افراد کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔

گزشتہ سال وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ نے اعتراف کیا تھا کہ نجی اسکولوں کی انتظامیہ اور حکومت کے تعلیمی اداروں میں طلبہ منشیات استعمال کر رہے ہیں جب کہ اسی اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ ملک میں 68 فیصد لوگ منشیات استعمال کرتے ہیں جو تکلیف دہ ہے۔

اس سے قبل 2018 کے آغاز میں وزیر اعلیٰ سندھ نے محکمہ انسداد منشیات فورس کی رپورٹ پر سندھ میں سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں منشیات کے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا تھا۔

انسداد منشیات فورس کی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 67 فیصد یونیورسٹی کے طالب علم منشیات کے استعمال میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 76 لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں جن میں سے 78 فیصد تعداد مردوں کی اور 22 فیصد تعداد عورتوں کی ہے۔

اسی تناظر میں سندھ پولیس نے تعلیمی اداروں کو منشیات سے پاک کرنے کے آپریش کے دوران دو مختلف نیٹ ورکس کو توڑنے کا دعوی کیا ہے۔

اسی حوالے سے ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان علی بلوچ نے ڈان نیوز کو بتایا کہ شہر کے منشیات فروش ان نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا جو نوجوان طلبہ کو منشیات فراہم کرنے میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے 2 نیٹ ورکس انمول عرف پنکی اور ڈاکٹر بلوچ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے گینگ کے 15 منشیات فروشوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس افسر نے وضاحت کی کہ ایک نیٹ ورک کے سرغنہ ڈاکٹر بلوچ کا اصل نام معلوم نہیں ہے جب کہ وہ صرف اپنے عرفی نام کے ساتھ منشیات سپلائی کرنے والے افراد کی فہرست میں شامل تھا۔

سینئر پولیس افسر نے ملزمان کے طریقہ کار سے متعلق بتایا کہ وہ واٹس ایپ گروپس کے ذریعے لوگوں سے رابطہ کرتے تھے اور مختلف قسم کی منشیات فراہم کرتے تھے۔