رانی پور کی حویلی سے مزید بچیاں بازیاب
ضلع خیرپور کے شہر رانی پور میں پیر اسد شاہ کی حویلی میں مبینہ تشدد سے کم سن بچی فاطمہ کی ہلاکت کا معاملہ بڑھ جانے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے وہاں پر ملازمت کرنے والی مزید کم سن بچیوں کو بازیاب کرواکر والدین کے پاس بھیج دیا۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس سکھر جاوید جسکانی نے میڈیا کو بتایا کہ فاطمہ فرڑیو کے 19 اگبست کو قبرکشائی کے بعد کیے گئے پوسٹ مارٹم کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے حویلی میں کام کرنے والی دوسری کم سن بچیوں کو بازیاب کرالیا۔
رانی پور میں قتل کی گئی فاطمہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لرزہ خیز انکشافات
جاوید جسکانی کے مطابق حویلی میں ملازمت کے غرض سے لائی گئی تمام کم سن بچیوں کو فوری طور پر والدین کے پاس بھجوا دیا جب کہ حویلی کی حدود میں پولیس چوکی قائم کرکے وہاں رہنے والے تمام مرد حضرات کے ڈی این اے کے لیے نمونے لے لیے گئے۔
ان کے مطابق پوسٹ مارٹم کرنے والی میڈیکل ٹیم نے بچی کے ساتھ مبینہ ریپ کا خدشہ ظاہر کیا ہے، جس کے بعد حویلی میں مقیم تمام مرد حضرات کے ڈی این اے کیے جائیں گے اور مرکزی ملزم پیر اسد شاہ کے بھی نمونے لے لیے گئے ہیں۔
جاوید جسکانی نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ کے نتائج کی روشنی میں رانی پور تھانے کے ایس ایچ او اور ہیڈ محرر کے ساتھ ساتھ کیس کی تفتیش میں شامل ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر کا ریمانڈ طلب کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مشتبہ افراد کو ثبوتوں کو مٹانے اور بغیر پوسٹ مارٹم لڑکی لاش کو دفن کرنے کے مقدمے میں بھی نامزد کیا جائے گا۔
جاوئد جسکانی نے فاطمہ کی میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے بتایا تھا کہ میڈیکل ٹیم نے بچی کے ساتھ ریپ کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
فاطمہ فرڑیو کی رپورٹ میں میڈیکل ٹیم نے بتایا تھا کہ ابتدائی نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندام نہانی اور مقعد میں مداخلت کی گئی اور وہاں تشدد کے نشانات کو پایا گیا، یعنی ممکنہ طور پر بچی کے ساتھ سفاکانہ طریقے سے غیر فطری انداز میں ریپ بھی کیا گیا ۔
فاطمہ فرڑیو کی قبرکشائی 19 اگست کو کی گئی تھی، جہاں عدالت اور پولیس کی نگرانی میں لاش سے اجزا لیے گئے تھے۔
ورثا نے بچی کو بغیر پوسٹ مارٹم کے دفنادیا تھا لیکن پولیس نے عدالت سے بچی کی قبرکشائی کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر عدالت نے اجازت دی تھی اور 19 اگست کو ماہرین اور عدالتی اہلکاروں کی موجودگی میں بچی کی قبرکشائی کرکے پوسٹ مارٹم کے لیے اجزا لیے گئے تھے۔
فاطمہ فرڑیو کو رانی پور کے پیر اسد شاہ کی حویلی میں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جہاں وہ سسک سسک کر فوت ہوگئی تھیں اور بعد ازاں بچی کی تڑپ تڑپ کر مرنے کی ویڈیوز آنے پر پولیس نے کارروائی کی تھی۔
بچی کی والدہ کی مدعیت میں 16 اگست کو مقدمہ دائر کرنے کے بعد مرکزی ملزم پیر اسد شاہ سمیت تین ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا جب کہ مرکزی ملزمہ حنا شاہ نے سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت لے لی تھی۔