فاطمہ قتل کیس: ڈی آئی جی سکھر پر الزام لگانے والے مریدوں پر مقدمہ درج

IMG-20230824-WA0003

رانی پور کی حویلی میں کم سن فاطمہ کے پراسرار قتل کے بعد گدی نشینوں، مرشدوں اور مریدوں کے اجلاس کے بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس سکھر جاوید جسکانی بلوچ پر کرپشن کے الزامات لگانے والے مرید علی حسن ملاح پر مقدمہ دائر کردیا گیا۔

علی حسن ملاح نے دستگیر ہائوس رانی پور میں ہونے والے اجلاس کے بعد مرشدوں کے مریدوں اور صحافیوں کے سامنے ڈی آئی جی سکھر پر الزامات لگائے تھے۔

اجلاس کے بعد خاص مرید علی حسن ملاح نے کہا تھا کہ گرفتار پیر اسد شاہ بے گناہ ہیں، انہیں سازش کے تحت گرفتار کیا گیا، کم سن فاطمہ کے قتل کا بے حد افسوس ہے، واقعے کی شفاف تفتیش کرکے ملزمان کو گرفتار کیا جائے، دوسروں پر الزامات نہ لگائیں جائیں۔

فاطمہ قتل کیس: گدی نشیوں اور مریدوں کا اجلاس، پیر اسد شاہ بے قصور قرار

مرید نے الزام لگایا اور دعویٰ کیا تھا کہ ڈی آئی جی سکھر نے اسد شاہ کی آزادی کے لیے بلیک میلرز کے ذریعے تین کروڑ روپے دینے کا کہا۔

علی حسن ملاح کی جانب سے ڈی آئی جی پر الزامات لگانے اور پولیس کے خلاف مریدوں کو بھڑکانے کے الزام میں ان سمیت دیگر 40 افراد کے خلاف سرکاری مدعیت میں مقدمہ دائر کردیا گیا۔

سندھ ٹی وی نیوز کے مطابق اے ایس آئی اصغر شاہ کی فریاد پر رانی پور تھانے پر علی حسن ملاح اور دیگر 40 مرشدوں کے خلاف سرکاری کام میں مداخلت اور کیس کو خراب کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔

سوشل رہنما شیریں اسد نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کی کاپی شیئر کرتے ہوئے ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی کے قدم کی تعریفیں بھی کیں۔

ایف آئی آر سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس نے مقدمہ دائر کرنے کے بعد رپورٹ عدالت میں بھی پیش کردی جب کہ معاملے کی تفتیش شاہنواز گوپانگ کے حوالے کردی گئی۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ فاطمہ فرڑیو کی ہلاکت 14 اگست کو ہوئی تھی اور ان کے حویلی میں مرنے کی ویڈیو 15 اگست کو وائرل ہوئی تھیں، جس کے بعد 16 اگست کو والدہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے ملزم پیر اسد شاہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اسد شاہ کو 17 اگست کو پہلے چار دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا اور بعد ازاں 21 اگست کو دوسری بار انہیں پانچ دن کے لیے پولیس کے حوالے کیا گیا تھا۔

بچی فاطمہ کا کیس سول جج اینڈ جوڈیشل مجسٹریٹ رانی پور کی عدالت میں ہے، اسد شاہ کی اہلیہ حنا شاہ بھی ایف آئی آر میں نامزد ہیں لیکن انہوں نے ضمانت کروا رکھی ہے۔

فاطمہ فرڑیو کا عدالتی نگرانی میں 19 اگست کو قبرکشائی کرکے پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا اور ابتدائی رپورٹ میں بچی پر بہیمانہ تشدد اور ریپ کیے جانے کا انکشاف کیا گیا تھا، جس کے بعد اسد شاہ سمیت حویلی کے دیگر مرد حضرات کے ڈین این اے کے نمونے لیے گئے تھے۔