سندھ بار کونسل نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
سندھ بار کونسل نے پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
ساتھ ہی سندھ بار کونسل نے سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے معاملے کو بھی چیلنج کردیا۔
سپریم کورٹ میں سینیئر وکیل صلاح الدین کے توسط سے سندھ بارکونسل کے وائس چیئرمین اظہر حسین، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی نعیم الدین قریشی اور ممبر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سید حیدر امام رضوی کی جانب سے مشترکہ طور پر دائر کی گئی۔
انگریزی اخبار ’ایکسپریس ٹربیون‘ کے مطابق درخواست میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 پر دستخط نہیں کیے، انہوں نے ان کی منظوری نہیں دی، اس لیے وہ تاحل بل ہیں اور قانون نہیں بنے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو بھی خلاف آئین قرار دیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ آرمی اور سیکریٹ ایکٹ کے تحت 9 اور 10 مئی کے واقعات کے ملزمان کا ٹرائل ہو رہا ہے، عام شہری کا اس ایکٹ کے تحت ٹرائل آئین کے آرٹیکل 4٫10٫10 اے، 25 کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو خلاف آئین قرار دے، 9 اور 10 مئی کے حملوں میں ملوث افراد کو سویلین عدالتوں میں منتقل کیا جائے، عدالت فریقین کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کرنے سے روکے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کو پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکریٹ (ترمیمی) ایکٹ 2023 کو صدارتی منظوری سے محروم قرار دینا چاہیے اور آئین کے آرٹیکل 75 (1) کے تحت قانون کی نظر میں کالعدم قرار دینا چاہیے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یا سپریم کورٹ متبادل طور پر یہ قرار دے سکتی ہے کہ یہ دونوں بلز، آئین سے متصادم ہیں کیونکہ وہ ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں سمیت عام شہریوں پر فوجی قوانین کے اطلاق اور ملٹری ٹربیونلز میں ان کے کیسز کی رسائی کی اجازت دیتے ہیں جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد کسی بھی مجرمانہ الزام کے تعین میں منصفانہ ٹرائل اور مناسب دفاع کا حق آرٹیکل 8 (3) میں مخصوص شق کی وجہ سے آئینی ضمانت بن گیا ہے۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو آئین کے آرٹیکل 4، 10، 10 اے، 25، 175، 202 اور 203 کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عالمی معاہدوں اور کنونشن کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔
As God is my witness, I did not sign Official Secrets Amendment Bill 2023 & Pakistan Army Amendment Bill 2023 as I disagreed with these laws. I asked my staff to return the bills unsigned within stipulated time to make them ineffective. I confirmed from them many times that…
— Dr. Arif Alvi (@ArifAlvi) August 20, 2023
خیال رہے کہ مذکورہ معاملے پر سندھ بار کونسل کی جانب سے دائر کردہ یہ پٹیشن اس نوعیت کی پانچویں درخواست ہے۔
اس سے قبل سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، سول سوسائٹی کی جانب سے وکیل فیصل صدیقی اور سابق وزیر قانون اعتزاز احسن اس طرح کی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کرچکے ہیں۔
مذکورہ دونوں بلز کے حوالے سے صدر پاکستان عارف علوی نے 20 اگست کو اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ انہوں نے ان بلز پر دستخط نہیں کیے اور انہیں صدارتی دفتر کے عہدیداروں نے کہا تھا کہ وہ بلز واپس بھجوا دیے گئے۔
مذکورہ دونوں بلز کو قومی اسمبلی اور سینیٹ نے جولائی اور اگست کے شروع میں منظور کیا تھا، جس کے بعد انہیں منظوری کے لیے صدر کو بھجوایا گیا تھا اور 20 اگست کو خبر آئی تھی کہ صدر نے ان پر دستخط کردیے لیکن پھر صدر نے ان پر دستخط کرنے کی تردید کی تھی۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 کو سینیٹ نے 27 جولائی جب کہ قومی اسمبلی نے 31 جولائی کو منظور کیا تھا جب کہ آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 کو قومی اسمبلی نے 2 اگست جب کہ سینیٹ سے 6 اگست کو منظور ہوا تھا۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے متن کے مطابق سرکاری حیثیت میں پاکستان کی سلامتی اور مفاد میں حاصل معلومات کا غیر مجاز انکشاف کرنے والے شخص کو 5 سال تک قید مشقت کی سزا دی جائے گی۔
آفیشل سیکریٹس ترمیمی بل کے متن کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کو کسی بھی شخص کے گھر پر چھاپے مارنے اور حراست میں لینے کا اختیار ہوگا۔