سندھ پولیس پریا کماری کی گمشدگی سے بے خبر

سندھ پولیس کی جانب سے شمالی سندھ کے سب سے بڑے شہر سکھر کے نواحی علاقے سنگرار سے دو سال قبل لاپتا ہونے والی کم سن بچی پریا کماری کی گمشدگی کا انکشاف ہوا ہے۔
سندھ پولیس نے 13 ستمبر کو نگران صوبائی کابینا کو سندھ بھر سے اغوا ہونے والے افراد سے متعلق بریفنگ دی اور پولیس کی بریفنگ میں پریا کماری کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔
سندھ حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق نگران وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کو انسپیکٹر جنرل پولیس نے امن امان سے متعلق صوبے بھر کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس سال 2023 میں 218 لوگ اغوا ہوئے، جن میں سے 207 مغوی بازیاب ہوئے، 11 لوگ ابھی تک یرغمال ہیں۔
آئی جی سندھ نے اجلاس کو بتایا کہ جب گزشتہ ماہ انہوں نے انسپکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالا تو صوبے بھر کے 57 افراد اغوا تھے، اب محض 11 رہ گئے ہیں۔
آئی جی سندھ کے مطابق مغویوں میں نوید لاشاری کو جیکب آباد، ساگر کمار کو شکارپور کے نواحی شہر گڑھی یاسین سے اغوا کیا گیا جب کہ قدیر، ظہیر، گلبھار اور شاہد کشمور سے اغوا ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ مغوری جبار کو سکھر، سوموار کو حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد، فرحان اور شاہد کو نوشہروفیروز سے اغوا کیا گیا۔
حیران کن طور پر اجلاس میں سکھر سے 2021 میں 10 محرم الحرام کو لاپتا ہونے والی کم سن پریا کماری کا ذکر ہی نہیں کیا گیا اور پولیس کی جانب سے ان کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی کابینا کی جانب سے ان سے متعلق کوئی سوال کیا گیا۔
سندھ پولیس کی جانب سے پریا کماری سے متعلق کوئی معلومات فراہم نہ کیے جانے اور سندھ حکومت کی جانب سے بھی بچی کی گمشدگی سے متعلق کوئی سوال نہ کیے جانے پر سیاسی و سماجی رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ پریا کماری 10 محرم الحرام 19 اگست 2021 کو سکھر کے نواحی چھوٹے شہر سنگرار سے اس وقت لاپتا ہوگئی تھیں جب وہ اپنے گھر کے باہر گلی میں محرم کا جلوس نکالنے والوں کے لیے والد کے ہمراہ سبیل میں لوگوں کو پانی پلاتی دکھائی دی تھیں۔
سندھ بھر کے صرف 11 افراد تاحال مغوی ہیں، سندھ پولیس کا دعویٰ
پریا کماری اچانک اسی دن سبیل سے غائب ہوگئیں اور کئی کوششوں کے بعد جب وہ نہیں ملیں تو ان کے والد راجو مل نے سیکشن پولیس تھانے میں بیٹی کے اغوا کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) 13/2021 پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی شق نمبر 34/364 کے تحت درج کروائی اور پولیس نے بچی کی تلاش بھی شروع کردی لیکن دو سال میں کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔