گھوٹکی تشدد واقعہ: صوبائی وزیر باری پتافی نے ہندو خاندان سے معاف مانگ لی
صوبائی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما باری پتافی نے ایک روز قبل اپنے قریبی رشتے دار شمشیر پتافی کی جانب سے تشدد و تضحیک کا نشانہ بنائے جانے والے ہندو خاتون سے معافی مانگ لی، جس کے بعد ہندو خاندان نے بھی انہیں معاف کردیا۔
ہندو خاتون کو باری پتافی کے قریبی رشتے دار شمشیر پتافی کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ 7 اگست کو شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی کے قریب پیش ایا تھا اور 8 اگست کو ٹوئٹر پر لوگوں نے ان کی گرفتاری کا ٹرینڈ بھی چلایا تھا۔
شمشیر پتافی نے ضلع سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے خاندان کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا تھا جب کہ ان کی کار نے شمشیر پتافی کی گاڑی کو اوور ٹیک کیا تو بااثر شخص غصے میں آگئے اور انہوں نے اپنے لوگوں کو بلاکر مذکورہ گاڑی پر حملہ کروایا، گاڑی کو توڑنے کے علاوہ اس میں سوار خواتین اور نوجوانوں کو بھی تشدد و تذلیل کا نشانہ بنایا۔
مذکورہ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے شمشیر پتافی کو گرفتار کرکے اسے سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
سندھ بھر کے لوگوں نے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین اور نوجوانوں کو تشدد اور تذلیل کا نشانہ بنائے جانے پر پر شمشیر پتافی کی گرفتاری کا ہیش ٹیگ بھی چلایا اور لکھا کہ ان جیسے طاقت کے نشے میں چور انسان ہی سندھ کے امن کے دشمن ہیں۔
سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلنے اور لوگوں میں غم و غصے کی لہر کے بعد شمشیر پتافی کے قریبی رشتے دار صوبائی وزیر باری پتافی نے متاثرہ خاندان کے پاس جاکر ان سے معافی مانگی اور شمشیر کو مجرم قرار دیا۔
باری پتافی نے میرپور ماتھیلو میں اپنے رشتے داروں کے ہاں قیام پزیر ہندو خاندان کے پاس جاکر ان سے معافی مانگی اور شمشیر پتافی کے عمل پر افسوس کا اظہار کیا، جس پر ہندو خاندان نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معاف کردیا۔
بعد ازاں باری پتافی اور متاثرہ ہندو نوجوان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے صلح کی تصدیق کی اور ہندو نوجوان نے بتایا کہ سندھیوں کی روایت ہے کہ معافی کے لیے چل کر انے والوں کو خون تک معاف کردیے جاتے ہیں یہ تو تو پھر بھی تشدد کا معاملہ تھا۔
باری پتافی نے معافی دینے پر ہندو خاندان کے بڑے دل کی تعریفیں کی مگر سوشل میڈیا پر لوگوں کو غصہ برقرار رہا اور سوال اٹھایا گیا کہ معافی مانگنے کے بجائے ملزم شمشیر پتافی کو سزا کیوں نہیں دلائی گئی؟