غیر قانونی افغان مہاجرین کو سندھ بدر کرو، عوام احتجاج پذیر

سندھ بھر کے عوام نے 8 اکتوبر کو مائکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر (ایکس) پر غیر قانونی غیر ملکیوں کو سندھ بدر کرو (#DeportIllegalImmigrants) کا ہیش ٹیگ چلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

سندھ کا عوام ماضی میں بھی صوبے بھر میں رہنے والے غیر قانونی غیر ملکیوں اور خصوصی طور پر افغان مہاجرین کو صوبے سے بدر کرنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔

عوام کی جانب سے حالیہ مطالبہ اور ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ایک ایسے وقت میں چلایا گیا جب کہ حکومت پاکستان نے بھی غیر قانونی افغان مہاجرین کو یکم نومبر 2023 تک ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔

 

حکومت پاکستان کی طرح ملک کے چاروں صوبوں کی حکومتوں نے بھی غیر قانونی افغان مہاجرین کو ملک چھوڑنے کا الٹیمیٹم دے دیا ہے اور سندھ میں غیر قانونی طور پر رہنے والے مہاجرین کے خلاف قانونی کارروائی کا بھی آغاز کیا جا چکا ہے۔

ایسے میں سندھ کے عوام کی جانب سے حکومتی پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے ٹوئٹر پر غیر ملکیوں کو سندھ بدر کرنے کا ٹرینڈ چلایا گیا۔

ٹوئٹر پر چلائے جانے والے (#DeportIllegalImmigrants) کے ٹرینڈ میں سندھ بھر کے نوجوانوں، سماجی رہنماؤں، سیاست دانوں اور زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے ٹوئٹس کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کی صوبہ بدری کا مطالبہ کیا۔

سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانی صوبے میں امن و امان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں، حالیہ رپورٹس سے ثابت ہو چکا کہ سندھ بھر میں ہونے والی ڈکیتیوں میں افغان مہاجرین ملوث ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین نے قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ نہیں کیا، البتہ کہا کہ قانونی طور پر مقیم مہاجرین کو بھی عالمی قوانین کے تحت خصوصی علاقوں تک محدود رکھا جائے۔

سندھ کا عوام اور سیاست دان وقتا بوقتا نشاندہی کرتے آئے ہیں کہ افغانستان کے غیر قانونی مہاجرین جہاں صوبے اور خصوصی طور پر دارالحکومت کراچی میں جرائم میں ملوث ہیں، وہیں وہ قبضہ مافیا بن کر مقامی افراد کی زمینوں پر بھی قابض ہو رہے ہیں جب کہ وہ زیادہ پیسوں کا لالچ دے کر مقامی لوگوں سے ملکیتیں خرید کر خود کو سندھ کا شہری قرار دیتے رہے ہیں۔

اگرچہ اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں غیر قانونی افغان مہاجرین کی تعداد 17 لاکھ تک ہے لیکن سندھ کے سیاست دانوں اور عوام کا ماننا ہے کہ غیر قانونی افغانیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔