مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں ملزمان 13 سال بعد بھی عدالت میں پیش نہ ہوئے

میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے بری ملزمان کے خلاف 13 سال بعد ہونے والی سماعت میں بھی ملزمان عدالت پیش نہ ہوئے جس پر کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام ملزمان کو آئندہ سماعت تک پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

سندھ ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ملوث ملزمان کی بریت کیخلاف درخواست گزار ملازم نورمحمد گوگا کی اپیلوں پر سماعت ہوئی، جہاں طلبی کے باوجود ملزمان کی عدم پیشی پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے ایس ایچ او کلفٹن کو نوٹس کی تعمیل کا حکم دیتے ہوئے سابق ڈی آئی جی شعیب سڈل، سابق پولیس افسر واجد درانی سمیت 19 ملزمان کو طلب کر لیا۔

مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کا پیپر بک 12 سال گزرجانے کے باوجود نہ بن سکا

اس دورانِ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مسعود شریف، رائے محمد طاہر، شبیر احمد قائم خانی انتقال کر چکے ہیں، جس پر دالت نے حکم دیا کہ جن ملزمان کا انتقال ہوچکا ہے ان کی بھی تصدیق کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔

پراسیکیوشن نے کہا کہ ملزموں کی بریت کے خلاف درخواست پر پیپر بک بنانے کا کام مکمل ہوگیا، ستمبر میں ہونے والی سماعت میں عدالت نے پیپر بک کو مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔

مرتضیٰ بھٹو کے گھریلو ملازم نور محمد گوگا نے ملزمان کی بریت کے خلاف جنوری 2010 میں سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جن پر عدالت نے 13 سال بعد اگست 2023 میں سماعتوں کی منظوری دی تھی اور ستمبر میں سماعتوں کا آغاز ہوا تھا اور 8 نومبر کو دوسری بار سماعت ہوئی۔

مرتضیٰ بھٹو کو 20 ستمبر 1996 میں پولیس کے وردی میں ملبوس افراد نے قتل کیا تھا اور مذکورہ کیس کی آخری سماعتیں دسمبر 2009 میں صوبائی دارالحکومت کراچی کی مقامی عدالتوں میں ہوئی تھیں۔

مرتضیٰ بھٹو قتل کیس 14 سال بعد ری اوپن

مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں ملوث ملزمان کو دسمبر 2009 میں ایڈیشنل سیشن جج شرقی آفتاب احمد نے عدم شواہد کی بنا پر بری کردیا تھا، جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) شہید بھٹو نے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس کے بعد مرتضیٰ بھٹو کے گھریلو ملازم نور محمد گوگا نے 2010 میں ملزمان کی بریت کے خلاف درخواستیں جمع کرائی تھیں۔