بچے جوان ہوگئے، جوان بزرگ ہوگئے، بینظیر کے قاتل نہ مل سکے

سندھ کی بہادر بیٹی، نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ پاکستان کی بھی پہلی خاتون بینظیر بھٹو کی شہادت کو 16 برس بیت گئے اور ان کی شہادت کے وقت کم سن رہنے والے بچے جوان جب کہ نو عمر افراد بزرگ ہوگئے لیکن ان کے قاتلوں کو سزا نہ دی جا سکی۔

سندھ کی بیٹی کو 27 دسمبر 2007 کو پنجاب کے شہر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد قتل کیا گیا تھا، ان کے قتل میں ملوث پانچ ملزمان کو ٹرائل کورٹ نے شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا تھا، سابق آمر جنرل پرویز مشرف مر چکے ہیں جب کہ دیگر زیادہ تر ملزمان ضمانت پر آزاد ہیں۔

سندھ میٹرز کی جانب سے مختلف میڈیائی رپورٹس کی بنیاد پر کی جانے والی تفتیش کے مطابق جائے وقوعہ کو دھو کر ثبوت ختم کرنے کے الزام میں گرفتار دونوں پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد اس وقت ضمانت پر رہا ہیں اور ان کو دی گئی سزا کا فیصلہ معطل ہو چکا ہے۔

مجموعی طور پر بے نظیر بھٹو کے قتل میں 16 افراد کو نامزد کیا گیا تھا جن میں سے پانچ افراد آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جب کہ 7 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، ان میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف بھی شامل ہیں۔

اس کیس میں پولیس نے اب تک 12 چالان پیش کیے ہیں۔ اس مقدمے کی 355 سماعتوں کے دوران 10 جج تبدیل ہوئے اور 141 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جن میں استغاثہ کے گواہان کی تعداد 68 تھی۔

بے نظیر بھٹو کے قتل میں نامزد مرکزی ملزمان کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کمانڈر بیت اللہ محسود، عبداللہ عرف صدام، اکرام اللہ، نادرخان عرف قاری، نصراللہ اور فیض محمد مختلف واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو پر حملہ کرنے والے خود کُش بمبار کی شناخت سید بلال کے نام سے ہوئی تھی۔

اس کیس میں اب تک جو افراد گرفتار ہیں ان میں اعتزاز شاہ، شیر زمان، رفاقت، حسنین گل اور راشد احمد شامل ہیں۔ یہ افراد گزشتہ کئی برسوں سے جیل میں ہیں۔

بے نظیر پر حملے کے کیس میں نامزد پولیس افسران میں سے راولپنڈی کے اس وقت کے سی پی او سعود عزیز ریٹائر ہو چکے ہیں جب کہ ایس پی خرم شہزاد ڈی آئی جی کے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ ان دونوں کو کئی بار گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں عدالت نے ان کی سزائیں بھی معطل کردیں، اب وہ آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت میں چلنے والے بے نظیر بھٹو قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ 31 اگست 2017 کو جاری کیا گیا تھا۔ اس فیصلے میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ استغاثہ پانچوں ملزمان کے خلاف اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سیکیورٹی کا انتظام بہتر ہوتا تو اس سانحے کو روکا جا سکتا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج اصغر خان نے اپنے 34 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا تھا کہ پولیس اور فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن (ایف آئی اے) دونوں نے عدالت میں چھ، چھ چالان پیش کیے۔

کیس میں 141 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے جن میں سے صرف 68 کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ استغاثہ گرفتار کیے گئے پانچوں ملزمان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جس کی بنیاد پر پانچوں گرفتار ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔

بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری، ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری اور بیٹیاں آصفہ اور بختار بھٹو زرداری ہر سال 27 دسمبر کو ان کی برسی کے موقع پر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی باتیں کرتے ہیں لیکن بینظیر کی موت کو ڈیڑھ دہائی گزر جانے کے باوجود ان کے قاتلوں کو سزائیں نہیں دی جا سکیں۔

بینظیر بھٹو کے قتل کے وقت گھٹنوں چلنے والے بچے اب جوان ہو چکے ہیں جب کہ اس وقت لڑکپن کی عمر میں موجود لڑکے اب ادھیڑ عمری کو پہنچ چکے ہیں لیکن بینظیر کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔