ملیر میں بااثر افراد کی جانب سے نوجوان پر بہیمانہ تشدد

—فائل فوٹو: فیس بک

کراچی ڈویژن کے ضلع ملیر کے گاؤں میں بااثر افراد کی جانب سے چوری کا الزام لگاکر بہیمانہ واقعہ ہونے پر لوگوں نے مذکورہ واقعے کو ناظم جوکھیو کے واقعے کا تسلسل قرار دیا ہے۔

سندھ میٹرس کو موصول ہونے والی ویڈیوز میں بااثر افراد کو نوجوان پر بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں ملزمان کو نوجوان کو رسیوں سے درخت کے ساتھ باندھ کر تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ اسے سوئمنگ پول میں بھی پانی میں ڈبو کر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں ملزمان بلوچی زبان میں بات کرتے دکھائی دیتے ہیں اور مذکورہ ویڈیوز سے متعلق شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کی پولیس نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

https://twitter.com/SindhMatters/status/1560639787995803648

 

سندھ میٹرس کے ذرائع کو مذکورہ نوجوان کے بھائی نے بتایا کہ ملزمان نے ان کے بھائی پر چوری کا الزام لگاکر بہیمانہ تشدد کیا اور اسے بے ہوشی کی حالت میں پھینک کر فرار ہوگئے، جسے بعد ازاں جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔

مذکورہ واقعہ ملیر کے علاقے جام کنڈو میں پیش آیا، جہاں شاہ لطیف تھانے کی حدود لگتی ہیں۔

متاثر نوجوان گلزار خاصخیلی  کے بھائی میرحسن خاصخیلی نے سندھ میٹرس کو بتایا کہ ان کا  بھائی نشے کے عادی ہے،  وہ بااثر حاجی طارق بلوچ کے گاؤں سیٹھ باغ گیا تھا، جہاں ایک دوست نے اسے لوہے کا پنجرہ دیا، جیسے وہ اپنے گاؤں لے کر آیا مگر جیسے ہی وہ لوہے کے ساتھ گھر پہہنچا تو چار افراد ان کے پیچھے آئے، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ گلزار خاصخیلی نے ان کی چوری کی ہے۔

متاثر نوجوان کے بھائی کے مطابق انہوں نے  بالاچ خان، امجد، شاہ زیب اور ایک اور شخص کو بھائی کو ساتھ لے جاکر پولیس کے حوالے کرنے کی اجازت دی مگر ملزمان نے اسے پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے خود تشدد کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے بھائی پر تشدد کی ویڈیوز سندھ میٹرس کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مذکورہ افراد نے ان کے بھائی کو بہیمانہ تشدد  کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں گاؤں کے قریب کنویں میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ 

ان کے مطابق انہوں نے بھائی کو تشویش ناک حالت میں جناح اسپتال منتقل کیا مگر وہاں بھی اسے علاج کی سہولیات فراہم کرنے سے انکار کردیا اور انہیں بھائی کو خانگی اسپتال لے جانے کی تجویز دی گئی۔

 میرحسن خاصخیلی کے مطابق وہ زخمی بھائی کو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے خانگی اسپتال نہیں لے گئے اور گھر لے کر آئے اور اب ان کی کوئی مدد نہیں کر رہا۔

انہوں نے سندھ حکومت اور پولیس سے واقعہ کا نوٹس لے کر مدد کرنے کی اپیل کی۔

لوگوں نے مذکورہ واقعے کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد واقعے کو ناظم جوکھیو کے قتل کا تسلسل قرار دیا اور کہا کہ آج بھی نام بدل کر کسی اور ناظم جوکھیو کو نشانہ بنایا گیا۔