سندھ حکومت نے اسٹیل ملز کی زمین وفاقی حکومت کو استعمال کرنے کی اجازت دیدی
نگران وزیراعلی سندھ جسٹس (ر)مقبول باقر کی زیرصدارت صوبائی نگران کابینا کے اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے جن میں آبیانہ اینڈ واٹر کے نرخوں میں اضافہ، غیرسروے شدہ اراضی کا سروے، راٹس آف ریکارڈ کی ازسرنو تحریر، پاکستان اسٹیل مل اراضی کو وفاقی حکومت صنعتی مقاصد کے لیے استعمال شامل تھے۔
جاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعلی ہائوس میں منعقدہ کابینا اجلاس میں صوبائی وزرا، چیف سیکرٹری ، چیئرمین پی اینڈ ڈی، سیکرٹری بلدیات، سیکرٹری خزانہ اور دیگر نے شرکت کی۔نگران کابینہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی زمین کو وفاقی حکومت ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے قیام کے لیے اس شرط پر استعمال کرسکتی ہے کہ زمین صرف صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کی جائے گی۔واضح رہے کہ سندھ حکومت نے74-1973 کے دوران پاکستان اسٹیل مل کو زمین دی تھی۔ اس وقت 13344.34 ایکڑ اراضی پاکستان اسٹیل ملز کے زیر استعمال ہے۔وزیر آبپاشی ایشور لعل نے کابینہ کو بتایا کہ آبپاشی کے نظام کی بہتری کے لیے آبیانہ ریٹ اینڈ سپلائی ریٹ کو بتدریج بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ مینٹیننس اینڈ ریپئر (ایم اینڈ آر)کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔ آبیانہ / واٹر چارجز کی وصولی M&Rپر ہونے والے اخراجات کے مقابلے میں کافی کم ہے اور سال 1999 میں اس پر نظر ثانی کی گئی تھی۔
آبیانہ کی سالانہ کلیکشن اوسطا528.45 ملین روپے ہے جبکہ ایم اینڈ آر پر سالانہ اخراجات 4,464.77 ملین روپے ہے۔ سندھ کے محکمہ آبپاشی کی اسٹڈی 2014 کے مطابق ایم اینڈ آر کو سالانہ 11353 ملین روپے کی ضرورت ہے۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ سندھ میں کپاس کا ریٹ 93.09 روپے فی ایکڑ رہا جبکہ پنجاب میں 2021 میں 250 روپے اور 2024 میں 1000 روپے، سندھ میں چاول کا آبیانہ ریٹ 88.78 روپے جبکہ پنجاب میں 2021 میں 250 روپے فی ایکڑ اور 2024 میں 2000 روپے رہا۔ اسی طرح سندھ میں سبزیوں، چارے اور باغات کے لیے آبیانہ کی قیمتیں بالترتیب 142.14 روپے، 53.3 روپے اور 142.14روپے جبکہ پنجاب میں یہ شرح 2024 میں 1200 روپے، 400 روپے اور 1000 روپے رہی ہے۔کابینہ نے مکمل غور کے بعد فصلوں کے لیے آبیانہ کی شرح اور میونسپل/گھریلو، صنعتی اور کمرشل استعمال کے لیے پانی کے چارجز میں 100 فیصد اضافے کی منظوری دی۔
آبیانہ کی موجودہ قیمت 53 روپے(دریا کا پانی)اور 363 روپے(ٹیوب ویل اور لفٹ مشین)فی ایکڑ ہے اور اسے بڑھا کر726/ 106روپے فی ایکڑ کر دیا جائے گا۔ میونسپل/گھریلو ریٹس کے لیے پانی کے نرخ 0.50 روپے فی 1000 گیلن ہے اور نئے نرخ 4 روپے فی 1000 گیلن ہوں گے جو 800 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔ صنعتی/کمرشل کے لیے پانی کی قیمت 1.0 روپے فی 1000 گیلن ہے اور اس کی نئی شرح 8.0 روپے فی 1000 گیلن ہوگی۔کابینہ نے مشاہدہ کیا کہ میونسپل کارپوریشنز، واٹر بورڈ، واسا اور یہاں تک کہ کراچی، حیدرآباد کے صنعتی علاقوں اور سکھر میں محکمہ آبپاشی کو پانی کی ایک پائی تک ادا نہیں کرتے۔غیر سروے شدہ مقامات: کابینہ کو بتایا گیا کہ ہر ضلع میں سروے کا کام شروع کیا جائے گا، جس کے لیے 32 سروے ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں جن میں ایک ریونیو سرویئر ، 6 تپیدار اور ایک انسپکٹر آف ریونیو اور سٹی سروے شامل ہیں۔
ہر سروے ٹیم ڈی جی پی ایس اور آپریٹر سمیت دیگر ضروری آلات سے لیس ہوگی۔فیلڈ سروے کی رپورٹ کو دن کے اختتام پر سافٹ فارمیٹ کے ذریعے لیب میں بھیجا جائے گا۔ یہ لیب ڈائریکٹوریٹ میں قائم کی جائے گی، جو زمین کے ریکاڈ کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھی کرے گی، تیار ڈیٹا کو تصدیق کے لیے متعلقہ ڈی سی اور مختیارکاراسٹیٹ کو بھیجا جائے گا۔سٹی سروے، دیہی آبادی کی شہری علاقوں میں منتقلی کی وجہ سے موجودہ سروے یا نئے سروے کی توسیع کے لیے کافی تعداد میں ٹانز کو سٹی سروے کرنے کی ضرورت ہے۔ رہائشیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ریکارڈ تیار کرنے اور سرکاری زمینوں کا صحیح حساب کتاب رکھنے کے لیے ڈویژنل، ضلعی اور تعلقہ ہیڈ کوارٹر(مجموعی طور پر 153 )پر سٹی سروے کرنے کی تجویز دی گئی۔
ری رائٹنگ/ریکارڈ آف رائٹس کی خصوصی نظر ثانی: آن لائن پورٹل VF-VIIA، VF-II اور VF-I کے ذریعے پرانے لینڈ ریکارڈ کی خصوصی نظر ثانی کی جائے گی۔ وزیر ریونیو یونس ڈھاگا نے کابینہ کو بتایا کہ حقوق کے ریکارڈ کے لیے ری رائٹنگ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ تصدیقی کمیٹیاں بھی بنائی جائیں گی۔ایسے کثیر جہتی کاموں کو انجام دینے کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف سروے اینڈ سیٹلمنٹ، BORکو آپریشن/کام شروع کرنا چاہیے۔ ایسے ٹیکنیکل لوگوں کی بھی ضرورت ہوگی جو ان کاموں کے حوالے سے تجربہ رکھتے ہیں۔کابینہ نے منصوبے کے لیے 2922.19 ملین روپے کے بجٹ کی منظوری دے دی۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ رواں مالی سال24-2023 کے دوران 290 ملین روپے یعنی 10 فیصد جاری کیا جائے گا جبکہ بقیہ 90 فیصد کی رقم آئندہ بجٹ 25-2024 میں مختص کی جائے گی۔کابینہ نے سندھ رجسٹریشن رولز 1940 میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سب رجسٹراروں کی بھرتی کی راہ ہموار کی ۔سب رجسٹراروں کی تقرری 50 فیصد سینئر کلرکوں سے ترقی کے ذریعے کی جاتی ہے جنہوں نے محکمانہ امتحان پاس کیا ہے اور 50 فیصد ابتدائی بھرتی کے حساب سے کی جاتی ہے۔ محکمانہ امتحان آئی جی رجسٹریشن کے ذریعے لیا جاتا ہے۔
ایس ایم بی آر زاہد عباسی نے کہا کہ ای-رجسٹریشن کی ضرورت کو پورا کرنے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے محکمہ نے سندھ رجسٹریشن رولز 1940 میں ترامیم کی تجویز پیش کی ہے، جس میں ابتدائی تقرری، محکمانہ امتحان کے انعقاد اور سب رجسٹراروں کی تربیت کے حوالے سے ہے۔ کابینہ نے فنڈز کی منظوری دے دی۔نگراں وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کے ایم سی اور کے ڈی اے کے ریٹائرڈ ملازمین اپنی پنشن اور ریٹائرمنٹ کے حوالے سے رقم کی وصولی کے لیے ان سے رابطہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایچ ڈی اے ملازمین کے لئے 500 ملین روپے کی منظوری دی اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ منظور شیخ کو ہدایت کی کہ وہ کے ڈی اے اور کے ایم سی کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی جلد سے جلد ممکن بنائیں۔ محکمہ لوکل گورنمنٹ اور کابینہ کی سفارش پر وزیراعلی نے کے ڈی اے کے ورکنگ اور ریٹائرڈ ملازمین کے بقایا جات کی ادائیگی کے لیے 3000 روپے یک وقتی گرانٹ ان ایڈ کی منظوری دی۔
کابینہ نے سہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 300 ملین روپے کی منظوری بھی دی۔صوبائی کابینہ نے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی درخواست پر 1.5 ایم جی ڈی میگا آر او پلانٹ اسلام کوٹ، ضلع تھرپارکر کی بحالی کے لیے 434.109 ملین روپے کی منظوری دی۔ این ای ڈی اور مہران یونیورسٹیوں کی ایک تکنیکی ٹیم نے بحالی کی لاگت کا اندازہ لگایا تھا لہذا اس رقم کو مرمت اور دیکھ بھال کے کام کے حوالے سے صرف کیا جائے گا۔ محکمہ جنگلات کی درخواست پر صوبائی کابینہ نے SPSC کے ذریعے منتخب 23 امیدواروں/رینج فاریسٹ آفیسرز (BS-16) کے لیے 51.216 ملین روپے کی منظوری دی تاکہ انہیں چار سال کے لیے پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ پشاور بھیج دیا جائے۔IDA قرض کی مدت میں توسیع: محکمہ آبپاشی کی درخواست پر صوبائی کابینہ نے 71.7 ملین ڈالر کے IDA کریڈٹ کی جون 2028 تک توسیع کی منظوری دی۔ کریڈٹ سہولت کے تحت گڈو اور سکھر بیراجوں کی بحالی کی جائے گی۔ایس ایچ سی فلور ایئر کنڈیشنر: وزیر قانون عمر سومرو نے کابینہ کو بتایا کہ ہائی کورٹ میں فلور ایئر کنڈیشنرز کی تنصیب کے لیے 167 ملین روپے کے اضافی فنڈز درکار ہیں۔ کابینہ نے فنڈز کی منظوری دے دی۔
احسن آباد تا ایچ سی ہاسنگ سوسائٹی روڈ، سیکریٹری لوکل گورنمنٹ منظور شیخ نان اے ڈی پی اسکیم کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے احسن آباد سے ہائی کورٹ ہائوسنگ سوسائٹی اسکیم 33 کراچی تک 99.945 ملین روپے سے سڑک کی تعمیر کے لیے تیار کی گئی ہے۔ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اس اسکیم پر عملدرآمد کرے گی۔ نگراں وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ اس سکیم کو محکمہ لوکل گورنمنٹ اپنی انٹرا سیکٹرل بچتوں سے فنڈ فراہم کرے گا۔وزیر ریونیو یونس ڈھاگا نے کابینہ کو بتایا کہ کراچی، خیرپور، لاڑکانہ، میرپورخاص اور لینڈ ریکارڈ آفیسر حیدرآباد کے سروے سپرنٹنڈنٹس نے بتایا ہے کہ ان کے ڈویژنل دائرہ اختیار میں تقریبا 4.5 ملین ایکڑ غیر تشخیص شدہ زمین سروے کے لیے دستیاب ہے۔