بیٹی کو ناجائز کہنے اور اہلیہ پر تہمت لگانے والے شخص کو کراچی کی عدالت سے 80 کوڑوں کی سزا

صوبائی دارالحکومت کراچی کے ضلع ملیر کی عدالت نے اپنے بیٹی کو ناجائز کہنے اور اہلیہ پر تہمت لگانے والے ملزم کو 80 کوڑوں کی سزا سنادی۔

سندھ کی کسی بھی عدالت کی جانب سے ملزم کو کوڑوں کی سزا کئی دہائیوں بعد سنائی گئی، اس سے قبل جنرل ضیا کے دور میں ایسی سزائیں دی جاتی تھیں۔

انگریزی اخبار ڈان کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ملیر) شہناز بوہیو نے فرید قادر کو جرم قذف (انفورسمنٹ آف حد) آرڈیننس 1979 کے سیکشن 7(1) کے تحت اپنی جائز بچی سے انکار کرنے اور اپنی سابقہ ​​بیوی پر جھوٹے الزامات لگانے پر مجرم قرار دیا۔

آرڈیننس کی مذکورہ دفعہ میں لکھا ہے کہ جو شخص قذف کا ارتکاب کرے گا اسے 80 کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔

جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ ملزم جھوٹا ہے اور اس نے شکایت کنندہ پر اپنی بیٹی کے ناجائز ہونے کے بارے میں قذف کا الزام لگایا، اس طرح اسے قذف آرڈیننس 1979 کے سیکشن 7(1) کے تحت مجرم قرار دیا گیا ہے اور 80 ضربوں کی سزا سنائی گئی۔

مجرم کی سابقہ ​​بیوی نے عدالت میں شکایت درج کرائی تھی کہ ان کی شادی فروری 2015 میں ہوئی اور وہ ایک ماہ تک ساتھ رہے، دسمبر 2015 میں انہوں نے ایک بچی کو جنم دیا، تاہم، ان کا سابق شوہر اسے دیکھ بھال فراہم کرنے یا اسے اپنے گھر واپس لے جانے میں ناکام رہا، جب انہوں نے فیملی کورٹ کا رخ کیا تو جج نے ان کے حق میں حکم دیا اور مجرم کو ہدایت کی کہ وہ اپنی بیٹی اور سابقہ ​​بیوی کو کفالت فراہم کرے۔

تاہم، شوہر نے درخواست کی کارروائی کے دوران عدالت میں بچی کے ڈی این اے ٹیسٹ اور بیٹی سے انکار کرنے کی 2 درخواستیں جمع کرائیں، بعد ازاں مجرم کی طرف سے یہ درخواستیں واپس لے لی گئیں۔

بعد ازاں خاتون نے نے فوجداری طریقہ کار کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 200، 203 بی کے تحت قذف آرڈیننس 1979 کے سیکشن 3, 5, 7, اور 11 کے ساتھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ (ملیر) میں اپنے سابق شوہر کے خلاف سنگین الزامات لگانے پر قانونی کارروائی کرنے کے لیے درخواست دائر کردی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم نے اپنی سابقہ ​​بیوی کی جانب سے لگائے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ شادی کے بعد صرف 6 گھنٹے تک ان کے ساتھ رہی اور پھر گھر سے نکلی اور کبھی واپس نہیں آئی۔

تاہم، عدالت نے نوٹ کیا کہ ملزم نے نہ تو حلف کے تحت گواہی دی اور نہ ہی اپنے دعوؤں کی حمایت کے لیے کوئی گواہ پیش کیا، مزید کہا کہ وکیل دفاع بھی ملزم کی جانب سے معافی مانگنے یا غلط فہمی کی بنا پر درخواست دائر کرنے کے حوالے سے کوئی ثبوت لانے میں ناکام رہے۔

عدالت نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ملزم نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت اپنے ریکارڈ شدہ بیان میں اعتراف کیا کہ بچی ان کی جائز اولاد ہے۔