صوبہ ڈوب گیا، بچے بھوک سے مرنے لگے، سندھ حکومت نیند سے نہ جاگی

کراچی ڈویژن اور ضلع تھر کے علاوہ 90 فیصد سندھ پانی میں ڈوب چکا ہے—فوٹو: ٹوئٹر

گزشتہ ہفتے سے مسلسل تیز بارشوں کے بعد تقریبا پورا صوبہ ڈوب چکا ہے اور ہزاروں دیہات کا زمینی رابطہ شہروں سے منقطع ہوچکا مگر سندھ حکومت تاحال نیند نہ جاگ سکی اور اعلانات سے کے علاوہ کوئی حقیقی کام نہ کر سکی۔

سندھ  بھر میں شدید بارشوں کے بعد 20 اگست کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی سے صوبے کے دورے پر نکلے اور ہر شہر میں انہوں نے کئی اعلانات کیے اور اس بات کا رونا بھی رویا کہ بارشوں نے تباہی مچائی ہے، تاہم اس باوجود انہوں نے کسی بھی ضلع میں بڑے پیمانے پر کوئی امدادی کام شروع نہیں کیا۔

علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی 23 اگست کو بارشوں کی تباہیوں کا اعتراف کیا مگر صوبائی حکومت کو فوری امدادی کارروائیاں شروع کرنے کے احکامات دینے کے بجائے انہوں نے وفاقی حکومت سے مدد کی بات کرنے کا بیان دیا۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بارشوں سےبڑی تباہی ہوئی ہے، میڈیا کو دوسرے مسائل کے بجائے بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی رپورٹنگ کرنی چاہیے۔

 

انہوں نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت سیلاب متاثرین کو جلد امداد فراہم کرنے کی بات کریں گے، تاہم انہوں نے اپنی پارٹی کی صوبائی حکومت کو امدادی کام شروع کرنے کے کوئی احکامات نہیں دیے۔

https://twitter.com/mkhanbijarani/status/1562095651013464065

شدید بارشوں سے کراچی ڈویژن اور ضلع تھرپارکر کے علاوہ تقریبا باقی تمام اضلاع پانی میں ڈوب چکے ہیں اور تمام اضلاع کے ہزاروں دیہات کا شہروں سے زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور دیہات میں بچے، خواتین اور بزرگ افراد دو دن سے خوراک کے بغیر کھلے آسمان تلے، سیلابی پانی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

 

دیہات کی طرح سندھ بھر کے شہر بھی بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور تقریبا صوبے کے 80 فیصد شہروں میں 5 سے 8 فٹ تک پانی موجود ہے اور وہاں کے مکین بھی صرف گھروں تک محدود ہیں۔

شہروں میں پانی کھڑے ہونے کی وجہ سے زیادہ تر تعلیمی ادارے بھی ڈوب چکے ہیں جب کہ مارکیٹوں سمیت اسپتال بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور کئی شہروں میں خوراک اور ضروری ادویات کی سخت قلت پیدا ہوچکی ہے۔

 

سوشل میڈیا پر سندھ بھر سے شیئر کی جانے والی درجنوں ویڈیوز میں کم سن بچوں، بزرگ افراد اور خواتین کو خوراک، ایندھن اور ادویات کے بغیر سیلابی ریلوں میں دربدری کی زندگی گزارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی درجنوں ویڈیوز میں سندھ بھر کے لوگوں کو میتوں کو 8 فٹ پانی سے لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ کئی علاقوں سے ایسی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ وہاں تدفین کے لیے زمین بھی دستیاب نہیں۔

 

سندھ بھر میں اس قدر تباہی ہونے کے باوجود تاحال سندھ حکومت نے کہیں بھی منظم انداز میں امدادی کارروائیاں شروع نہیں کیں اور صوبے بھر سے لوگوں نے صوبائی حکومت اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو خدا کے واسطے دے کر مدد کے لیے آنے کی اپیلیں بھی کیں۔